فرائض کے بعد اجتماعی دعا کا حکم

فرائض کے بعد اجتماعی دعا کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فرائض کے بعد اجتماعی دعا جائز ہے یا نہیں؟نیز اگر  اجتماعی دعا جائز ہو، تو  سرًا ہوگی یا جہرًا ؟

جواب

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد فی نفسہ دعا مانگنا بے شمار احادیث نبویہ سے ثابت ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا منصوص نہیں، نیز فرض نماز کے بعد اجتماع کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، اجتماعی دعا مقصود نہیں ہوتی، امام اور مقتدی ہر ایک آہستہ آواز میں اپنی اپنی دعا مانگتے ہیں، تعلیم وغیرہ کی نیت سے کبھی کبھار جہر کی گنجائش ہے، لیکن جہر پر التزام ومداومت درست نہیں، پھر اجتماعی دعا میں قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے، لہٰذا اسے بدعت تو نہیں کہا جائے گا، یہ بات ضرور ہے کہ اجتماعی دعا کو سنت مستمرہ قرار دینا یا فرض اور واجب کی طرح لازم سمجھنا، یا شریک نہ ہونے والوں پر نکیر کرنا، یا کبھی دعا ترک کرنے والے کو ہدف ملامت بنانا درست نہیں۔
لما في صحیح البخاري:
’’کتب المغیرۃ إلی المعاویۃ بن أبي سفیان: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ إذا سلم:لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وھو علی کل شيء قدیر، اللھم لا مانع لما أعطیت، ولا معطي لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد‘‘. (کتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلاۃ: 72/8، دار طوق النجاۃ)
وفي جامع الترمذي:
’’عن أبي أمامۃ رضي اللہ عنہ، قال:قیل یا رسول اللہ:أي الدعاء أسمع؟ قال:جوف اللیل الآخر، ودبر الصلوات المکتوبات‘‘. (أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: 526/5، مصطفی البانی الحلبی)
وفي استحباب الدعوات عقیب الصلوات لحکیم الأمۃ التھانوي:
وقد أکثر الناس في ھذہ المسألۃ، أعني: دعا الإمام عقیب الصلاۃ، وتأمین الحاضرین علی دعاؤہ، وحاصل ما أنفصل عنہ الإمام ابن عرفۃ والغبرینی:أن ذلک إن کان علی نیۃ أنہ من سنن الصلاۃ وفضائلھا، فھو غیر جائز، وإن کان مع السلامۃ من ذلک، فھو باق علی حکم أصل الدعاء، والدعاء عبادۃ شرعیۃ‘‘.(إمداد الفتاوی، باب مسائل منثورہ، ص: 649، دار العلوم کراچی).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/88