غیر شرعی امور والے شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں شرکت کا حکم

غیر شرعی امور والے شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں شرکت کا حکم

سوال

(۱) شادی بیاہ ، ولیمہ یا ایسے دوسرے نجی تقریبات (جو فی نفسہ تو جائز ہوں) پر جن میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ) کا ارتکاب کیا جا رہا ہو ان میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور کیا ایسی محفلوں کا کھانا حرام ہوتا ہے؟

(۲) ایسی اسلامی تقریبات جن میں غیر شرعی امور (مثلا تصویر کشی، سٹرک یا راستہ روک کر لوگوں کے راستے روکنا جیسا کہ جلسوں میں کیا جاتا ہے وغیرہ) کا ارتکاب کیا جا رہا ہو ان میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور ایسی محفلوں کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

(۳)الف: اگر ولیمہ کی موقع پر مردوں کے کھانے کی محفل میں خود تو غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو پر شادی والوں کے گھر پر عورتیں غیر شرعی امور (مثلا مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ) کا ارتکاب کر رہی ہوں تو پھر مردوں کا اس ولیمے کے کھانے میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور کیا ایسی محفلوں کا کھانا حرام ہوتا ہے؟

ب: اگر رات کو شادی کے گھر والوں نے غیر شرعی امور (مثلا: مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ) کا ارتکاب کیا ہو اور اگلے دن ولیمہ ہو۔ اس ولیمے کے کھانے میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور کیا ایسی محفلوں کا کھانا حرام ہوتا ہے؟

جواب

(۱) ایسی صورت میں فقہاء نے یہ تفصیل لکھی ہے کہ اگر پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں شادی، یا دوسرے کی تقریبات میں گانے بجانے اور دیگر خرافات ہوتے ہیں، تو مقتدیٰ اور غیر مقتدیٰ سب کے لیے جانا جائز نہیں، البتہ اگر پہلے سے معلوم نہ ہو، بلکہ وہاں جا کر اس کو پتہ چلے، تو مقتدی کو چاہیے کہ اس کو منع کرے، بشرطیکہ منع کرنے پر قادر ہو، اور اگر منع کرنے پر قادر نہ ہو، تو اس کو چاہیے کہ اٹھ کر چلا جائے، اور اگر غیر مقتدیٰ تھا، تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے، اگرچہ بہتر واپس آجاتا ہے، کھانا بہر صورت حلال ہے، اس کو حرام نہیں کہا جائے گا۔

(۲) ایسی اسلامی تقریبات یا ہڑتال، احتجاج اور جیسے جس میں تھوڑ پھوڑ، جلاوٴ گھیراوٴ، سنگبازی وپتھراوٴ، لوٹ مار، سرکاری وعوامی املاک کو نقصان پہنچانا، تاجر برادری کو دوکانیں ومارکٹیں بند رکھنے پر مجبور کرنا اور تصویر کشی شرعا نا جائز ہے۔

اگر مذکورہ سابقہ قباحتوں کا ارتکاب نہ کیا جائے، تو ہڑتال احتجاج اور جیسے اپنے جائز حقوق کے حصول، ظالم حکمران کے خلاف اور شرعی مطالبات منوانے کے لیے صرف ہی نہیں، بلکہ ایک مستحسن اقدام ہے، کھانا بہر صورت حلال ہے۔

(۳) الف، ب: ایسے ولیمے کے کھانے میں شرکت کرنا جائز ہے، اور کھانا بھی حلال ہے۔

لما في الدر مع الرد:

(دعى إلى وليمة وثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لا ينبغي أن يقعد بل يخرج معرضًا لقوله تعالى: ﴿فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين﴾ (فإن قدر على المنع فعل وإلا) بقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين، والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولًا) باللعب (لا يحضر أصلًا) سواء كان ممن يقتدى به أولًا؛ لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله.

قوله: (لا ينبغي أن يقعد) أي: يجب عليه قال في الاختيار: لأن استماع اللهو حرام والإجابة سنة والامتناع عن الحرام أولى. وكذا إذا كان على المائدة قوم يغتابون لا يقعد فالغيبة أشد من اللهو واللعب.

قوله: (ولو على المائدة إلخ) كان الواجب عليه أن يذكره قبل قول المصنف الآتي: (وإن علم) كما فعل صاحب الهداية، فإن قول المصنف (فإن قدر) فيما لو كان المنكر في المنزل لا المائدة ففي كلامه إلهام لا يخفى. (كتاب الحظر والإباحة: 9/574، 575، رشيدية)

وفي الهداية:

ومن دعى إلى وليمة أو طعام وفوجد ثمة لعبًا أو غناءً فلا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة رحمه الله ابتليت بهذا مرة فصبرت. وهذا لأن إجابة الدعوة سنة. قال عليه السلام من لم يجب الدعوة فقد عصى أبا القاسم. فلا يتركها لما اقترنت به من البدعة من غيره. كصلاة الجنازة واجبة الإقامة وإن حضرتها نياحة. فإن قدر على المنع منعهم. وإن لم يقدر يصبر وهذا إذا لم يكن مقتدى به فإن كان ولم يقدر على منعهم يخرج ولا يقعد لأن في ذلك شين الدين وفتح باب المعصية على المسلمين. والمحكي عن أبي حنيفة رحمه الله في الكتاب كان قبل أن يصير مقتدى. ولو كان ذلك على المائدة لا ينبغي أن يقعد وإن لم يكن مقتدى لقوله تعالى: وهذا كله بعد الحضور ولو علم قبل الحضور لا يحضر لأنه لم يلزمه حق الدعوة. بخلاف ما إذا هجم عليه لأنه قدر لزمه. (كتاب الكراهية: 4/455، 656، رحمانية)

وفي تكملة فتح الملهم:

وأما المبدأ الثاني: فهو أنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، فلا يطاع أمير ولا إمام إن أمر بما هو معصية وإن هذا المبدأ لو عمل به في بلاد المسلمين اليوم لأغنى عن كثير من الإضرابات والاضطرابات الجارية في كثير من البلدان، ولاضطرت به الحكومات على تطبيق الشريعة الإسلامية في جميع نواحي الحياة، فلو امتنع القضاة عن إصدار حكم لا يوافق شرع الله، وامتنع المؤظفون من امتثال الأوامر المصادمة لأوامر الله. وامتنع أصحاب البنوك من التمويل على أساس الربا المحرم شرعًا، وامتنع العامة من إيداع أموالهم في البنوك الربوية، وامتنع كل مسلم عن الخضوع للأحكام المصادمة للشريعة الغراء، واضطرت الحكومات إلى إلغاء القوانين الوضعية التي لا توافق الشريعة الإسلامية.

وهذا هو الطريق المشروع للضغط على الحكومات في سبيل إقامة شرع الله وتطبيق أحكامه، وأما ما تعلمه الناس من الغرب من وسائل الضغط على الحكومات، كالاضرابات، والمظاهرات، وسد الشوارع، وسفك الدماء، وتخريب العمران. فليس من الإسلام في شيء. (كتاب الإمارة: 3/324، 325، دار العلوم).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/117،119