غنی عالم کا زکوٰۃ اور صدقات لینا

Darul Ifta

غنی عالم کا زکوٰۃ اور صدقات لینا

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی جو کہ غنی بھی ہو اور عالم بھی اس کے لیے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ عالم کے لیے جائز ہے اور وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں لقول الفقہاء ”الکتب لأھلھا” حاجت اصلیہ میں داخل ہے۔

جواب

عالم اگر مال دار یا غنی ہو تو اسے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا لینا جائز نہیں۔”الکتب لأھلھا” کا مطلب یہ ہے کہ اگر دینی کتابیں ایسے عالم کے پاس ہیں جو کہ مالک نصاب نہیں اور ان کتابوں کی وجہ سے مالک نصاب بن جاتا ہے تو بھی اسے زکوٰۃ لینا جائز ہے، کیوں کہ یہ کتابیں اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں اور اگر دینی کتابیں کسی غیر عالم کے پاس ہوں او رجن کی قیمت لگانے سے وہ مالک نصاب بن جاتا ہو تو اسے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
وفي الدر: وکذا الکتب وإن لم تکن لأھلھا إذا لم تنو للتجارۃ، غیر أن الأھل لہ أخذ الزکاۃ، وإن ساوت نصباً.(الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٥، سعید)
وفي الرد: ''وإنما الفرق بین الأھل وغیرھم في جواز أخذ الزکاۃ والمنع عنہ، فمن کان من أھلھا إذا کان محتاجا إلیھا۔۔۔۔ فإنہ لا یخرج بھا عن الفقر، فلہ أخذ الزکاۃ۔۔۔۔ وأما غیر الأھل فإنھم یحرمون بالکتب من أخذ الزکاۃ۔۔۔۔ الخ (رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء: ٣/٢١٧، دارالمعرفۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer