عصر کی نماز حرمین شریفین میں شافعی المسلک کے مطابق پڑھنا

عصر کی نماز حرمین شریفین میں شافعی المسلک کے مطابق پڑھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم پاکستان میں عصر کی نماز امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق پڑھتے ہیں، ہم جب حج وعمرہ کرنے جاتے ہیں تو وہاں ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق کیوں پڑھتے ہیں؟نیز کیا وہ ہماری نمازیں ادا ہوجائیں گی؟

جواب

واضح رہے کہ عصر کے وقت مثل اول کا قول بھی مفتی بہ ہے ، اگرچہ معمول بہ مثل ثانی کا قول ہے، اس لیے حرم شریف میں مثل اول کے بعد بھی عصر کی نماز ادا ہوجائے گی، حرم شریف کے علاوہ مثل ثانی پر عمل کرے۔
لما في الدر المختار مع الرد:
’’قولہ:(إلی بلوغ الظل مثلیہ) ھذا ظاھر الروایۃ عن الإمام نھایۃ وھو الصحیح .بدائع ومحیط. وینابیع وھو المختار غیاثیۃ، واختارہ الإمام المحبوبي، وعول علیہ النسفي، وصدر الشریعۃ تصحیح قاسم، واختارہ أصحاب المتون، وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوي:وبقولھما نأخذ لا یدل علی أنہ المذھب، وما في الفیض من أنہ یفتی بقولھما في العصر، والعشاء مسلم في العشاء فقط علی ما فیہ، وتمامہ في البحر‘‘.
’’ (قولہ:وعنہ)أي:عن الإمام ح، وفي روایۃ عنہ أیضًا أنہ بالمثل یخرج وقت الظھر، ولا یدخل وقت العصر إلا بالمثلین ذکرھا الزیلعي وغیرہ، وعلیھا فما بین المثل والمثلین وقت مھمل .
(قولہ:مثلہ)منصوب ببلوغ المقدار، والتقدیر، وعن الإمام إلی بلوغ الظل مثلہ ،ح.
(قولہ:وھو ظل في الباب) فیہ أن الأدلۃ تکافأت، ولم یظھر ضعیف دلیل الإمام بل أدلتہ قویۃ أیضًا کما یعلم من مراجعۃ المطولات، وشرح المنیۃ، وقد قال في البحر لا یعدل عن قول الإمام إلی قولھما، أو قول أحدھما إلا لضرورۃ من ضعف دلیل، أو تعامل بخلافہ کالمزارعۃ وإن صرح المشایخ بأن الفتوی علی قولھما کما ھنا .
(قولہ:وعلیہ عمل الناس الیوم)أي:في کثیر من البلاد، والأحسن ما في السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یؤخر الظھر إلی المثل، وأن لا یصلي العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مأدیا للصلاتین في وقتھما بالإجماع، وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعۃ یکون الأولی التأخیر أم لا، والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل ثم رأیت في آخر شرح المنیۃ ناقلًا عن بعض الفتاوی أنہ لو کان إمام محلتہ یصلي العشاء قبل غیاب الشفق الأبیض فالأفضل أن یصلیھا، وبعد البیاض‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل البعثۃ: 2/19،20، رشیدیۃ).
وفي النھر الفائق:
’’فإذا بلغ ظل کل شيء مثلہ أو مثلیہ علی الخلاف الآتي مع ذلک المقدار خرج وقت الظھیرۃ، ودخل وقت العصر قال ابن الساعاتي:ھذا في المواضع الذي لا تسامت الشمس رؤوس أھلھا أما فیھا فیعتبر المثل من عند ذي الظل‘‘.(کتاب الصلاۃ:159/1، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/209