عربی کے بغیر صرف ترجمہ قرآن کی اشاعت

عربی کے بغیر صرف ترجمہ قرآن کی اشاعت

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ حال ہی میں ایک قرآن کریم شائع ہوا ہے جو بغیر عربی عبارت کے ہے،صرف اردو ترجمہ کیا ہوا ہے، آیا عربی عبارت کے بغیر اردو میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنا یا ایسے قرآن کا پڑھنا جو بغیر عربی عبارت کے ہو جائز ہے ،یا نہیں؟

جواب

قرآن مجید کا صرف ترجمہ بغیر عربی الفاظ کے لکھنا اور شائع کرنا باجماع امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے جیساکہ روایات ذیل سے اس کا ناجائز اور حرام ہونا ثابت ہوتا ہے، اور اس کا لکھنا او رشائع کرنا ناجائز او رحرام ہے، تو اس کی خرید وفروخت بھی بوجہ اعانت علی المعصیت ناجائز اور حرام ہو گی۔''ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان قال المحقق الکمال ابن ہمام رحمہ اﷲ فی شرح الھدایۃ فتح القدیر وفی الکافی ان اعتاد القراء ۃ بالفارسیۃ أو ارادان یکتب مصحفاً منھا یمنع (ص٢٨٦،ج١، ھکذا قال الشامی تحت قولہ وتجوز کتابۃ آیۃ أو أیتین بالفارسیۃ لاأکثر، ص٢٥٩،ج١)

علامہ شر نبلالی نے جو دسویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ اور مفتی وصاحب تصانیف کثیرہ ہیں؟ ایک مستقل رسالہ اس موضوع پر لکھا ہے جس کا نام:” النفحۃ القدسہ فی احکام قرأۃ وکتابۃ بالفارسیۃ” ہے۔ اس میں مذاہب اربعہ سے اس کی حرمت اور سخت ممانعت ثابت کی ہے کہ قرآن مجید کو کسی عجمی زبان میں محض ترجمہ بلانظم قرآنی عربی لکھا جائے جس کی عبارت یہ ہے :

''وأما کتابۃ القرآن بالفارسیۃ فقد نص علیھا فی غیرما کتاب من کتب ائمتا الحقیقا المعتمدۃ منھا قال مؤلف الھدایہ فی التجنیس والمزید ما نصہ ویمنع من کتابۃ القرآن بالفارسیۃ بالاجماع لانہ یؤدی للا خلال بحفظ القرآن لانا امرنا بحفظ النظم والمعنی بانہ دلالۃ علی النبوۃ ولانہ ربما یودی الی التھاون باسر القرآن بحوالہ جواہر الفقہ( جواہر الفقہ، قرآن کا رسم الخط، ٨٢/١، دارالعلوم کراچی)

الحاصل توراۃ وانجیل کا تحریف ہونے کا سبب سب سے پہلے یہی بات بنی تھی کہ یہود ونصاریٰ نے ان کے صرف ترجمے شائع کیے،رفتہ رفتہ وہ اصل کتاب اﷲ سے دور ہوتے گئے او رانہوں نے اﷲ پاک کے احکامات میں من مانی تحریف شروع کر دی حتی کہ جو بات بھی ان کو اس میں پسند نہ آتی، اس کی جگہ اپنی رائے اور قیاس کو داخل کر دیتے اور چونکہ اصل کتاب الہی سے پردہ رہ گیا تھا اس لیے ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔

اسی طرح بعض مغربی تہذیب وتمدن سے متاثر افراداور عصری تعلیم کے پروردہ اشخاص اور صرف نام کے مسلمان جو اسلامی احکامات کو ترقی اور خوش حالی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ یہود ونصاریٰ کی طرح ہم بھی دین اسلام میں من مانی کریں اور اس کے لیے پہلی سیڑھی کے طور پر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ قرآن کریم کے اصل متن کے بغیر صرف ترجمہ شائع کیا ہے تاکہ مسلمان جو پہلے ہی کلام الہی سے نابلد ہیں ،ناکافی ترجموں میں الجھ کر رہ جائیں اور رفتہ رفتہ کلام اﷲ کی حقیقی روح سے محروم ہوتے چلے جائیں اور ان عناصر کو اپنی من پسند تاویلات کو کلام اﷲ میں داخل کرنے کا موقع مل جائے، لہٰذا ایسے تراجم کی اشاعت ناجائز ہے اور دانستہ شائع کرنے والے قرار واقعی سزا کے مستحق ہیں۔

فتح القدیر میں ہے:''إنْ اعْتَادَ الْقِرَاء َۃَ بِالْفَارِسِیَّۃِ أَوْ أَرَادَ أَنْ یَکْتُبَ مُصْحَفًا بِہَا یُمْنَعُ وَإِنْ فَعَلَ فِی آیَۃٍ أَوْ آیَتَیْنِ لَا، فَإِنْ کَتَبَ الْقُرْآنَ وَتَفْسِیرَ کُلِّ حَرْفٍ وَتَرْجَمَتَہُ جَازَ.'' فتح القدیر، باب صفۃ الصلوٰۃ ص٢٨٦۔ج١،مصر).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی