طلاق کا جھوٹا اقرار کرنے سے طلاق کا حکم

طلاق کا جھوٹا اقرار کرنے سے طلاق کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سالے کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہنا کہ : اپنی بہن کو لے جاؤ ،میں نے اسے طلاق دی ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی مستقل طلاق بیوی کو نہ دی ہو۔ کیا اس طرح جھوٹ بولنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اس طرح جھوٹ بولنے سے دیانۃ طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن پھر بھی طلاق کے معاملے میں احتیاط بہر حال ضروری ہے۔
لما في التاتارخانیۃ:
’’وفي الأصل في باب الطلاق: إذا قال لامرأتہ:’’قد طلقتک‘‘ أو قال ’’أنت طالق قد طلقتک أمس‘‘وھو کاذب کان طلاقًا في القضاء وفي الصغری: في أمالي أبي یوسف رحمہ اللہ تعالی: إذا قال لھا :’’قد طلقتک‘‘ أو قال لھا :’’أنت طالق‘‘وأراد الخیر عما مضی کذبا فیما بینہ وبین اللہ أن یمسکھا. (کتاب الطلاق، فصل فیما یرجع إلی صریح الطلاق: 401/4، فاروقیۃ)
وفي المحیط البرہاني:
’’وفي الأصل في باب الطلاق: إذا قال لامرأتہ:’’قد طلقتک‘‘أو قال:’’أنت طالق قد طلقتک أمس‘‘وھو کاذب کانت طالقا في القضاء‘‘. (کتاب الطلاق: 393/4، إدارۃ القرآن)
وفي رد المحتار:
’’قال:’’أنت طالق‘‘ أو ’’أنت حر‘‘وعنی الإخبار کذبا وقع قضاء، إلا إذا أشھد علی ذلک‘‘.(کتاب الطلاق: 510/4، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/128