ضرورت سے زائد اشیاء پر زکوٰۃواجب ہوگی؟

Darul Ifta

ضرورت سے زائد اشیاء پر زکوٰۃواجب ہوگی؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں شادی کے موقع پر عورت کے جہیز کے سامان میں ایسے برتن اور ایسے بستر موجود ہوتے ہیں جن کے استعمال کی ضرورت بالکل نہیں ہوتی، نیز شادی بیاہ کے وقت عورت کے پاس چالیس سے پچاس تک کپڑوں کے جوڑے موجود ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شوکیس اور الماری بھی موجود ہوتی ہیں ، کیا اس عورت پر زکوٰۃ یا قربانی واجب ہے؟

جواب

زیورات کے علاوہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ نہیں، خواہ وہ ضرورت سے زائد ہوں،البتہ اگر ضروریاتِ اصلی سے زائد چیزوں کی قیمت نصابِ زکوٰۃ کے برابر ہے تو مذکورہ عورت پر قربانی اور صدقہئ فطر لازم ہے، اور اس نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں۔
لیکن زیورات اگر بقدرِ نصاب ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ہر صورت میں زکوٰۃ واجب ہے، خواہ وہ زیرِ استعمال ہوں یا نہ ہوں۔
ولا في ثیاب البدن وأثاث والمنزل ودور السکنی ونحوھا.'' وفي الرد: کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیھا. (رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع...: ٢/٢٦٤،٢٦٥، سعید)
ولا زکاۃ باتفاق المذاھب علی الحوائج الأصلیۃ من ثیاب البدن والأمتعۃ و دور السکنی (العقارات) وأثات المنزل، ودواب الرکوب، وسلاح الاستعمال والکتب العلمیۃ وإن لم تکن لأھلھا إذا لم ینوبھا التجارۃ وآلات المحترفین؛ لأنھا مشغولہ بالحاجۃ الأصلیۃ ولیست بنا میۃ أصلاً.(الفقہ الإسلامی وأدلتہ، الزکاۃ: ٣/١٧٩٥، رشیدیۃ)
وفي الخانیۃ: الموسر في ظاہر الروایۃ من لہ مائتا درہم، أو عشرون دینارا أو ما بلغ ذلک سوی مسکنہ ومتاعہ ومرکبہ وخادمہ الذي في حاجتہ. (البحرالرائق، کتاب الأضحیۃ: ٨/٣١٩، رشیدیۃ)
نصاب الذھب عشرون مثقالا والفضۃ مائنا درھم کل عشرۃ۔۔۔ والازم مبتدأ في مضروب کل منھما ومعمولہ ولو تبرا أو حلیا مطلقا مباح الاستعمال أولا ولو للتجمل والنفقۃ: لأنھما خلقا أثمانا فیزکیھما کیف کانا.'' (الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٢٩٥ ۔ ٢٩٨، سعید). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer