شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے ایصال ثواب کے لیے گیارہویں منانا

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے ایصال ثواب کے لیے گیارہویں منانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم مسلمان ہیں ہماری برادری میں نہ جانے کتنی نسلوں سے ہر سال پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کے ایصال ثواب کے لیے گیارہویں منائی جاتی ہے،گاؤں والوں سے چندہ جمع کیا جاتاہے،جس  کے بعد ایک مقررہ دن کھانا پکایا جاتا ہے،پہلے ختم قرآن کیا جاتا ہے،پھر پکے ہوئے کھانے سے تھوڑا کھانا فاتحہ خواں کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے،اور قراں شریف اور کھانے کا ثواب پیر صاحب کی روح کو ایصال کیا جاتا ہے،اس عمل سے پہلے کھانا کسی کو بھی نہیں کھلایا جاتا،حاالانکہ بلائے ہوئے بچوں کو بھی نہیں کھلانے دیتے ،پھر چند فقیروں کو کھلایا جاتا ہے، اس کے بعد چندہ دینے والوں کا بہت بڑا ہجوم جو خاص کھانا کھانے کے لیے (خصوصا عورتیں زرق برق کپڑوں میں ملبوس بے پر دہ)جمع ہوتا ہے، وہ کھالیتے ہیں،اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دینی کام ہے،سوال یہ ہے  کہ کیا یہ طریقہ کار شرعاً جائز ہے، یا بدعت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ میت کے لیے ایصال ثواب کرنا جائز ہے، بشرطیکہ خاص طریقہ متعین نہ کیا جائے ، اورنہ ہی یہ سنت سمجھا جائے ،ورنہ یہ بدعت اور گناہ کا عمل ہوگا۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں گیارہویں منانا اور خاص طریقے سے فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب کرنا، یہ سب کام بدعات میں سے ہیں اور عورتوں کا زیب وزینت اختیار کر کے بے پردگی کے ساتھ ایسے مجمعوں میں جانا اور ان سب امور کو دین سمجھ کر کرنا، بہت خطرناک گناہ ہے، ایسے کاموں اور ایسی سوچ سے اجتناب لازم ہے۔
لما في حاشیۃ إبن عابدین:
’’وفي البحر:من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز، ویصل ثوابھا إلیھم عند أھل السنۃ والجماعۃ کذا في البدائع‘‘.(کتاب الصلاۃ، صلاۃ الجنائز، مطلب في القراءۃ للمیت وإھداء ثوابھا لہ:180/3،رشیدیۃ).
وفي الإعتصام:
’’وقولہ في الحد تضاھي الشرعیۃ....
ومنھا: التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد ...وما أشبہ ذلک‘‘.(باب في تعریف البدع وبیان معناھا وما اشتق منہ لفظا،ص:25،دارالمعرفۃ).
وفي الدر مع الرد:
’’(واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیھم فھو بالإجماع باطل وحرام).....ولابد أن یکون المنذور مما یصح بہ النذر کالصدقۃ بالدراھم ونحوھا، أما لو نذر زیتا لإیقاد قندیل فوق ضریح الشیخ أو في المنارۃ کما یفعل النساء من نذر الزیت لسیدي عبد القادر ویوقد في المنارۃ جھۃ المشرق فھو باطل‘‘.(کتاب الصوم، فصل في العوارض المبیحۃ العدم الصوم:492/3، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/201