سادات کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں

Darul Ifta

سادات کے لیے زکوٰۃلینا جائز نہیں

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں خاندانِ سادات سے ہوں اور خاندان سادات (یا سیّد ) پر کچھ شرعی پابندیاں ہیں کہ سیّد میت کا کھانا، منت کا کھانا، زکوٰۃ، خیرات وصدقہ نہ کھا سکتا ہے اور نہ لے سکتا ہے، منت، زکوۃ، خیرات اور صدقہ تو بالکل صاف ہے ،مگر میت کا کھانا کون سا ہے، یہ وضاحت طلب ہے،کسی عزیز یا دوست احباب کے یہاں میت ہو جاتی ہے، اس میں وہ (سیّد)جاتا ہے،  تدفین کے بعد غالباً شرعی طریقہ ہے کہ کوئی رشتہ دار، عزیز واقارب یا دوست احباب میت کے گھر والوں کا کھانا کرتے ہیں، ہمارے یہاں رواج ہے کہ تین یوم کھانا کرتے ہیں، پہلے دن تو عام لوگ بھی کھاتے ہیں، بقیہ دن خاص آئے ہوئے او رگھر والے کھاتے ہیں، اب اس میں سیّد بھی کسی بھی حیثیت سے شریک ہے تو وہ کیا کرے؟ کھانا کھائے یا نہ کھائے؟ پھر سوئم، دسواں، چالیسواں اور چہلم بھی لوگ کرتے ہیں، اس میں بھی کھانا پکتا ہے اور یہ کھانا میت کے گھر والے پکواتے ہیں، اس میں سیّد بھی شرکت کرتا ہے تو اسے یہ کھانا کھانا چاہیے یا نہیں؟

جواب

میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانا پکانے کا جو حکم ہے وہ صرف اہلِ خانہ ہی کے لیے ہے، اس میں عام لوگوں کو کھلانا جائز نہیں، لہٰذا پہلے دن عام لوگوں کوکھلانے کا رواج غلط او رواجب الترک ہے، اور سیّد جب اہلِ خانہ سے ہو تو اس کو کھانا جائز ہے، ممنوع نہیں،اس کے لیے ممنوع صرف صدقات یعنی زکوٰۃ، صدقہ الفطر، نذر وکفارات ہیں،سوئم دسواں،چالیسواں اور چہلم وغیرہ کے کھانے قرآن وحدیث سے ثابت نہیں،یہ جاہل عوام کی غیر مسلموں سے اخذ کردہ ایجادات ہیں، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے چاہے سیّد ہو یا غیر سیّد انہیں پکانا یا کھانا جائز نہیں۔
قال في الفتح: ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام لہم یشبعہم یومہم ولیلتہم، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ''اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاء ہم ما یشغلہم''حسنہ الترمذی وصححہ الحاکم ولأنہ بر ومعروف، ویلح علیہم في الأکل، لأن الحزن یمنعہم من ذلک فیضعفون.ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من أہل المیت؛ لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ. وروی الإمام أحمد وابن ماجہ بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: ''کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ'' وفي البزازیۃ: ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔۔۔ وھذہ الأفعال کلھا للسمعۃ والریاء فیحتزر عنھا؛ لأنھم لا یریدون بھاوجہ اﷲ تعالیٰ.'' (رد المحتار، کتاب الجنائز، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في کراھۃ الضیافۃ من أھل المیت: ٢/٢٤٠، سعید)
ولا إلی بني ھاشم۔۔۔۔ وجازت التطوعات من الصدقات الخ، قولہ: (وجازت التطوعات) قید بھا لیخرج بقیۃ الواجبات کالنذر والعشرو الکفارات. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف ٢/٣٥١، سعید)
ولا تدفع إلی بني ھاشم؛ لقولہ علیہ السلام: یا بني ھاشم! ''إن اﷲ تعالیٰ قد حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخھم''.(الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ومن لا یجوز: ١/٢٠٦، شرکۃ علمیۃ)
وأطلق الحکم في بني ہاشم، ولم یقیدہ بزمان، ولا بشخص إشارۃ إلی رد روایۃ أبي عصمۃ عن الإمام أنہ یجوز الدفع إلی بني ہاشم في زمانہ۔۔۔؛ وللإشارۃ إلی رد الروایۃ بأن الہاشمي یجوز لہ أن یدفع زکاتہ إلی ہاشمي مثلہ؛ لأن ظاہر الروایۃ المنع مطلقا. (البحرالرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٤٣١، رشیدیۃ)
''ویکرہ اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ أیام وأکلھا، لأنھا مشروعۃ للسرور ۔۔۔۔ ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، والأعیاد''(البزازیۃ علی ھامش الھندیۃ، قبیل الفصل السادس والعشرون في حکم المسجد: ٤/٨١، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer