سادات کو زکوٰۃ دینے کا حکم

سادات کو زکوٰۃ دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بنو ہاشم یعنی سادات وغیرہ کو زکوۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہیں، بلکہ ان کے لیے شریعت نے خمس مقرر کیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آج کل بہت سے بنو ہاشم یعنی سادات وغیرہ غریب اور فقیر ہیں، اب مستحق زکوۃ بھی ہیں اور لوگ اتنا ہدیہ بھی نہیں دیتے کہ ان کی ضروریات پوری ہوسکیں، اس کی وضاحت فرمائیں، اس لیے آج کل خمس بھی نہیں ملتا تو پھر ان کے لیے زکوۃ کی کیا صورت ہوگی؟
دوسری بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے درسِ ترمذی جلد دوم ،صفحہ نمبر ٤٠٧ میں بحوالہ بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: ابو عصمہ رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ اگر بیت المال سے خمس ختم ہونے کے بعد بنو ہاشم کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے اور امام طحاوی نے بھی ایک روایت اسی طرح نقل کی ہے اور بعض شافعیہ اور مالکیہ کا یہی قول نقل کیا ہے، بنو ہاشم میں فقر کی کثرت کی وجہ سے امام صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں کیا فرماتے ہیں باوجود یہ کہ بیت المال سے خمس بنو ہاشم کو نہیں ملتا، وضاحت فرمائیں۔

جواب

احادیث مبارکہ میں زکوۃ کو لوگوں کی میل کچیل بتلایا گیا ہے، اور اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ سادات (بنوہاشم) کے لیے زکوۃ لینا اور ان کو دینا جائز نہیں، لہذا بنو ہاشم کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، جہاں تک یہ بات ہے کہ آج کے زمانے میں خمس وغیرہ کا نظام ختم ہوگیا ہے، تو یہ بات جواز کے لیے کافی نہیں، اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ سادات کو ہدایا دیں اور ان پر نفلی صدقات کریں، اس سے ان کی امداد ہوجائے گی، بصورت دیگر مجبوری کی حالت میں زکوۃ کی تملیک کراکر ان کی مدد کی جائے۔
لما في المحیط البرھاني:
’’ولا یجوز أن یعطی من الزکاۃ فقراء بني ھاشم، ولا موالیھم، قال علیہ الصلاۃ والسلام: الصدقۃ محرمۃ علی بني ھاشم ومولی القوم من أنفسھم) وقال علیہ الصلاۃ والسلام:یا بني ھاشم إن اللہ کرہ لکم غسالۃ الناس وعوض لکم منھا بخمس الخمس من الغنیمۃ‘‘.(کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن من یوضع فیہ الزکاۃ: ٣/ ٢١٤:المجلس العلمي)
وفي البحر الرائق:
’’قولہ:(وبني ھاشم وموالیھم) أي:لا یجوز الدفع لھم؛ لحدیث البخاري:(نحن أھل بیت لا تحل لنا الصدقۃ)‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ٢/ ٤٢٩:رشیدیۃ)
وفي التنویر مع الدر:
’’(وجازت التطوعات من الصدقات و) غلۃ (الأوقاف لھم) أي لبنی ھاشم‘‘.(کتاب الزکاۃ، مطلب في الحوائج الأصلیۃ: ٣/ ٣٥٢:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/228