زکوۃ کے رقم سے امام کو تنخواہ دینے کا حکم

زکوۃ کے رقم سے امام کو تنخواہ دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فطرانہ یا زکوۃ کے پیسوں پر امام کا تراویح پڑھنا یا امامت کروانا یعنی امام تراویح پڑھائے یا نمازیں پڑھائیں پھر اس کے مقتدی تنخواہ کے بدلے اس کو فطرانہ کا یا زکوۃ کے پیسے دے شرعًا امام کے لیے ان پیسوں کا لینا اور مقتدیوں کا یہ پیسے دینا اس کا کیا حکم ہے۔
وضاحت:الگ سے تنخواہ نہیں ملتی، یا الگ سے تنخواہ بھی ملتی ہو، دونوں کا حکم مطلوب ہے۔

جواب

امام کو اس کی امامت کے عوض میں زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی اور نہ ہی امام کے لئے اس کا لینا جائز ہے، چاہے وہ فقیر ہو یا مالدار، ایسی زکوۃ کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے، البتہ اگر امام کی تنخواہ مقرر ہو اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہو، تو ایسے امام کو امامت کا عوض شمار کیے بغیر زکوۃ ادا کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی، یہی حکم صدقۃ الفطر کا بھی ہے۔
لما في البحر:
’’هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى‘‘.(كتاب الزكاة، 352/2: رشيدية)
وفي الهندية:
’’أما تفسيرها: فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى، هذا في الشرع كذا في التبيين‘‘.(كتاب الزكاة، الباب الأول، 232/1، دار الفكر)
وفي الدر:
’’(هي تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقير غير هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى)‘‘.(كتاب الزكاة، 206/3:رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي)‘‘.(كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، 361/3:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/131