رقم محفوظ رکھنے کے لیے بینک میں جمع کرانے کا حکم

رقم محفوظ رکھنے کے لیے بینک میں جمع کرانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی خاتون کا شوہر مر جائے اور اس کے چھوٹے بچے ہوں، اب اس خاتون کے پاس نقد رقم کے علاوہ کوئی دوسرا مال نہیں، تو کیا نقد رقم محفوظ رکھنے کے لیے وہ بینک میں جمع کروا سکتی ہے، جب کہ اس میں سود کا بھی اندیشہ ہو، اور یہ تب ہے جب کوئی معتمد شخص بھی نہیں، جس کے پاس اپنی رقم رکھے اور کوئی کاروباری صورت بھی نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بینک اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا قرض کی حیثیت رکھتا ہے اور قرض پر نفع لینا سود اور حرام ہے، رقم محفوظ کرنے کے لیے بینک کے علاوہ اگر کوئی اور ذریعہ ہو تو وہ بہتر ہے، وگرنہ ضرورت کے وقت کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کی گنجائش ہے۔
لما في بدائع الصنائع:
’’وأما الذي یرجع إلی نفس القرض، فھو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ...... لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ نھی عن قرض جر نفعا، ولأن الزیادۃ المشروط تشبہ الربا؛ لأنھا فضل لا یقابلہ عوض، والتحرز عن حقیقۃ الربا وعن شبھۃ الربا واجب‘‘.(کتاب القرض: 597/10، دار الکتب العلمیۃ)
وفي اعلاء السنن:
’’(عن علي رضي اللہ عنہ مرفوعًا:[کل قرض جر منفعۃ فھو ربا]، ولما رواہ شواھد کثیرۃ) قال العبد الضعیف: قال ابن حزم في المحلی: والربا لا یکون إلا في بیع أو قرض أو سلم......... فلا یصل إقراض کل شيء لیرد إلیک أقل ولا أکثر.....وھذا إجماع مقطوع بہ اھـ فمثلہ [ابن حزم] لا یذعن الإجماع إلا إذا جاء مثل فلق الصبح‘‘.(باب کل قرض جر منفعۃ فھو ربا:513/14،  إدارۃ القرآن)
وفي الدر مع الرد:
’’کل قرض جر نفعا حرام أي:إذا کان مشروطًا‘‘.(کتاب البیوع، فصل في القرض: 512/14، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/264