دو بیٹے اور چھ بیٹیوں میں تقسیم میراث

دو بیٹے اور چھ بیٹیوں میں تقسیم میراث

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ گزارش ہے کہ ہمارے والد صاحب کے آٹھ بچے ہیں ،جن میں دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، والد صاحب کے پاس ایک گھر تھا جس میں ہم سب رہتے تھے، جو انہوں نے خود بنایا تھا ، جب تین بڑی بہنوں کی شادی ہوگئی ،تو والد صاحب نے ایک پلاٹ اور خریدا اور بنایا، میں بچپن سے والد صاحب کے ساتھ کام کرتا تھا، والد صاحب اور والدہ نے نیا پلاٹ میرے نام کردیا ، پھر میری شادی ہوگئی اور میری نوکری بھی لگ گئی، میں تمام تنخواہ گھر میں والد صاحب کو دینے لگا، والدہ اور والد نے کوئی وصیت نہیں بنائی تھی، زبانی کہا تھا کہ ایک گھر بڑے لڑکے کا ہے ، اور دوسرا چھوٹے لڑکے کا، پھر والدہ کا انتقال ہوگیا اور والد صاحب نے باقی تین بہنوں اور ایک بھائی کی بھی شادی کردی، پھر والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا، جس کے فوراً بعد بڑی بہن نے پرانے گھر کے کاغذات چوری کرلیے، اور چھوٹے بھائی نے نئے گھر کے کاغذات چوری کرلیے، اور تمام بہنیں والدہ کا زیور اور سامان لے گئیں، اور اب تمام بہنیں گھر کا حصہ مانگ رہی ہیں، میں نے بڑے ہونے کے ناطے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک گھر میرا ہوگا اور دوسراگھر بھائی کا ہوگا، اور تمام بہنوں کو پانچ، پانچ لاکھ دو ں گا آہستہ آہستہ، لیکن بہنیں یہ کہتی ہیں کہ ایک گھر میں دونوں بھائی رہو، اور دوسرا چھ بہنوں کا ہوگا جو کہ بہت مشکل ہے، آج کے دور میں گھر بنانا اور خریدنا کتنا مشکل ہے، اور اب میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں ، پرانے گھر کی قیمت ستر لاکھ ہے اور نئے گھر کی قیمت جو میرے نام ہے ڈیرھ کروڑ ہے، اب یہ فیصلہ کریں کہ یہ معاملہ حل ہوجائے اور گھر بھی نہ بیچنا پڑے اور بہنوں کو بھی حصہ مل جائے، پرانا گھر والد صاحب کے نام پر ہے۔
اب شریعت کے حساب سے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جو والد صاحب کے نام پر ہے اس میں سے حصے بنیں گے یا دونوں گھروں میں سے سب کے حصے بنیں گے؟ برائے مہربانی ہمارے مسئلے کو حل کریں۔
وضاحت:پلاٹ والد مرحوم نے بڑے بیٹے کے نام کیا تھا، قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا، نیا مکان بننے کے بعد سب ہی اس میں شفٹ ہوگئے، والد نے زبانی اتنا کہا تھا کہ ایک مکان ایک بیٹے کا اور دوسرا دوسرے بیٹے کا، قبضہ اور ملکیت کے بغیر۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ نے جو والد صاحب کے ساتھ مل کر کاروبار کیا ، اس میں آپ والد صاحب کے معاون شمار ہوں گے، اور جو کما کر ان کو دیا ہے وہ سارا انہی کا شمار ہوگا، اور آپ کے والدین نے جو آپ کو گھر ہبہ (ہدیہ) کیا، اس پر آپ کا قبضہ نہیں ہوا، اس لیے اس پر آپ کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی، اور جو وصیت کی ہے، وہ بھی ناجائز ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگی، لہٰذا آپ کے والدین نے جو ترکہ چھوڑا ہے(گھر ، سونا وغیرہ) وہ تمام بہن بھائیوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
لہٰذا تقسیم شرعی کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومیں کے کفن ودفن کے درمیانی اخراجات ادا کیے جائیں(بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعاً ادا نہ کئے ہوں)، اس کے بعد اگر مرحومین کے ذمہ کوئی واجب الاداء قرض، یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کردیے جائیں، پھر اگر مرحومین نے کسی وغیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی حد تک اس کو نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
قابلِ تقسیم ترکہ کے کل دس حصے کیے جائیں، پھر دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو حصے اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ،ایک حصہ دیا جائے۔
فیصدی لحاظ سے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو%20اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو%10فیصد ملے گا۔
لما في قولہٖ تعالٰی:
یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین.....(سورۃ النساء:11)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا: تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ مرتبۃ: الأول: یبدأ بتکفینہ وتجھیزہ من غیر تبذیر ولا تقتیر، ثم تقضی دیونہ من جمیع ما بقي من مالہ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین، ثم یقسم الباقي بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ‘‘. (باب الحقوق المتعلقۃ بترکۃ المیت:5-8، البشریٰ).
وفیہ أیضاً:
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للاثنین فصاعدۃ، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین، وھو یعصبھن‘‘. (أحوال الزوجات والبنات:32-33، البشریٰ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/77