دوران نماز اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوجائے تو آگے جانے کاطریقہ

 دوران نماز اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوجائے تو آگے جانے حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱…جماعت کے دوان اگلی صف میں جگہ خالی ہو ،توپیچھے کھڑا شخص اگر وہ آگے آئے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا، ایک ہی لمبا قدم بھر کر آئے گا یا برابر قدم اٹھا کر کچھ ٹھہر کر آئے گا یا عام چلنے کے انداز میں آگے ہوگا؟
۲… اور اگر پیچھے کھڑا شخص آگے نہ ہو تو اس کے برابر یا کچھ دور شخص بھی اس خلاء کو پر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

۱… نمازی کے لیے دوران نماز اگلی صف میں آنے کے لیے عام چلنے کے انداز میں جانا تو درست نہیں، البتہ ایک لمبا قدم بھر کر آگے آنے کی گنجائش ہے، اور بہتر یہ ہے کہ برابر قدم اٹھا کر جائے، پھر قدم اٹھا کر آگے آئے۔
۲… اگر پیچھے کھڑا ہوا شخص آگے نہ ہو، تو برابر والے لوگ اور کچھ دور شخص بھی اس خلا کو پر کرسکتے ہیں، لیکن اتنا دور شخص جس کا فاصلہ دو صفوں کی مقدار تک پہنچ جاتا ہے، وہ اس سے اجتناب کرے، اس لیے کہ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے، بعض فقہاء کے نزدیک ایسے شخص کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
لما في الشامیۃ:
’’ثم اختلفوا في تأویلہ، فقیل: تأویلہ إذا لم یجاوز الصفوف أو موضع سجودہ، وإلا فسدت، وقیل: إذا لم یکن متلاحقا، بل خطوۃ ثم خطوۃ، فلو متلاحقا تفسد إن لم یستدیر القبلۃ؛ لأنہ عمل کثیر، وقیل: تأویلہ إذا مشی مقدار ما بین الصفین، کما قالوا، فیمن رأی فرجۃ في الصف الأول، فمشی إلیھا فسدھا، فإن کان ھو في الصف الثاني لم تفسد صلاتہ، وإن کان في الصف الثالث فسدت‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في المشي في الصلاۃ: ٢/ ٤٦٩:رشیدیۃ)
وفي الفتاوی الھندیۃ:
’’ولو مشی في صلاتہ مقدار صف واحد لم تفسد صلاتہ، ولو کان مقدار صفین إن مشی دفعۃ واحدۃ فسدت صلاتہ، وإن مشی إلی صف، ووقف ثم إلی صف لا تفسد. کذا في فتاوی قاضي خان‘‘.(کتاب الصلاۃ، الفصل الأول فیما یفسدھا: ١/ ١٠٣:ماجدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/252