دوران نماز اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوجائے تو آگے جانے حکم

 دوران نماز اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوجائے تو آگے جانے حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر جماعت کے دوران اگلی صف سے کوئی شخص نکل جائے اور وہ جگہ خالی ہوجائے ،تو پیچھے کھڑے ہوئے شخص کو وہ خلاء پر کرنا ضروری ہے یا مستحب یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر جماعت کے دوران اگلی صف سے کوئی نکل جائے اور وہ جگہ خالی ہوجائے، تو پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں کے لیے اس خلا کو پر کرنا سنت موکدہ ہے، اور اگر وہ لوگ اس خلا کو پر نہیں کرتے ،تو وہ مکروہ تحریمی کے مرتکب شمار ہوں گے۔
لما في إعلاء السنن:
’’وفي حاشیۃ البخاري عن العیني: وھي (أي:تسویۃ الصفوف)سنۃ عند أبي حنیفۃ والشافعي ومالک رحمھم اللہ، قلت: والظاھر من کلام أصحابنا أنھا سنۃ مؤکدۃ لإطلاقھم الکراھۃ علی ضدھا، والکراھۃ المطلقۃ ھي التحریمۃ، وقد وقع التصریح بھا في کلام بعضھم کما سیأتي..... قلت: فیہ الأمر بالرص، والمحاذاۃ بالأعناق، والمراد بھا التسویۃ، وقد علمت کون التسویۃ سنۃ عندنا، وکذلک الرص، والظاھر المذھب أن وصل الصف بمعنی إکمال الأول، فالأول سنۃ مؤکدۃ، وقطع بمعنی القیام في الصف خلف صف فیہ فرجۃ مکروہ، فالظاھر أن إکمال الصف لیس بواجب عندھم، بل ھو سنۃ‘‘.(باب سنیۃ تسویۃ الصف ورصھا: ٤/ ٣٥٣، ٣٥٤:إدارۃ القرآن)
لما في الدر مع شرحہ:
’’ولو صلی علی رفوف المسجد إن وجد في صحتہ مکانا کرہ کقیامہ في صف خلف صف فیہ فرجۃ‘‘.
قولہ: (کقیامہ في صف إلخ) ھل الکراھۃ فیہ تنزیھیۃ أو تحریمیۃ ویرشد إلی الثاني قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ومن قطعہ قطعہ اللہ بقي ما إذا رأی افرجۃ بعد ما أحرم ھل یمشي إلیھا، لم أرہ صریحا وظاھر الإطلاق نعم ویفیدہ مسألۃ من جذب غیرہ من الصف کما قدمناہ فإنہ ینبغي لہ أن یجیبہ لتنتفي الکراھۃ عن الجاذب فمشیہ لنفي الکراھۃ عن نفسہ أولی، فتأمل، ثم رأیت في مفسدات الصلاۃ من الحلیۃ عن الذخیرۃ: إن کان في الصف الثاني فرأی فرجۃ في الأول فمشی إلیھا لم تفسد صلاتہ؛ لأنہ مأمور بالمراصۃ، قال علیہ الصلاۃ والسلام: تراصوا في الصفوف ولو کان في الصف الثالث تفسد اھـ أي: لأنہ عمل کثیر وظاھر التعلیل بالأمر أنہ یطلب منہ المشي إلیھا‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، في الکلام علی الصف الأول: ٢/ ٣٨٧:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/251