داماد اگر غریب ہو تو اس کو زکوۃ دینے سے ادا ہو جائیگی؟

داماد اگر غریب ہو تو اس کو زکوۃ دینے سے ادا ہو جائیگی؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ۱۔گزارش یہ ہے کہ ہمارے ایک داماد دینی مدرسے میں درس نظامی کے درجہ خامسہ کے طالب علم ہیں  ان کی ترتیب یہ ہے کہ  صبح عرصے مد رسہ تشریف لیجاتے ہیں اور ظہر سے قبل مدرسے سے چھٹی مل جاتی ہے  پھر ظہر کے بعد ایک جگہ پرائیوٹ دکان پر رات گیارہ بجے ایک بطور سیلزمین ملازمت کرتے ہیں ،جہاں سے کم وبیش پندرہ ہزار ماہانہ  تنخواہ ملتی ہے  ،انکی گھریلو ترتیب یہ ہے  کہ سارے بھائی الگ الگ رہتے ہیں اور سب کے معاملات جداجدا ہیں، یعنی رہائش  کھانا پکانا خرچہ وغیرہ  الگ الگ ہے ،البتہ  ان کے دوسرے بھائی اور ہم اس قدر ممکن ہو مالی معاونت بھی کرتے  رہتے ہیں،  لیکن اس کی  کوئی مستقل اور مخصوص یا متعین صورت نہیں ہے  تو رہنمائی فرمائیں کہ آیا ہم سالانہ  زکاۃ  کی رقم انہیں دے سکتے ہیں  ،یعنی وہ اس  کے مستحق ہیں  یا نہیں  ۔ اور اگر  دے سکتے ہیں  تو کیا  یہ درست ہوگا  کہ ہم اس خیال  سے ان کی  عزت نفس مجروح  نہ  ہو   زکاۃ  کی رقم  اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں یا پھر  ان کی ضروریات  کی اشیا ء  خرید  کر دے سکتے ہیں  ؟ براہ کرم  رھنمائی  فرمائیں تو بہت نو ازش ہوگی ۔

۲۔ ہمارے دوسرے داماد  عالم دین ہیں گزشتہ برس ان کی  فراغت  ہوئی ہے ، ان کے والد صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں اور وہ والدین کے ہمراہ  رہتے ہیں اور  والد  صاحب  پہ  ہی ان کا نان نفقہ  کے لیے انحصار ہے،  خود وہ ایک جگہ آن لائن قرآن اکیڈمی  میں پڑھاتے ہیں،جہاں سے  پانچ ہزار  بطور وظیفہ ملتا ہے، جو کہ ہماری بیٹی  کی ذاتی ضروریات  کے لیے ناکافی ہیں، یقینی  طور پر  ہم سے جس قدر ممکن ہے ،اپنی بیٹی کی مالی معاونت کرتے ہیں  کیا ہم اپنی بیٹی  یا داماد کو زکاۃ  دے سکتے ہیں ،یا نہیں؟ اور کیا زکاۃ کی رقم سے ان کی   ضروریات  کی کوئی چیز خرید کر دی جاسکتی ہے،  تاکہ ان کی عزت  نفس مجروح نہ ہو اور انہیں  لگے کہ ہم  نے اپنی بیٹی  کی معاونت  کی یا ان کا اکرام کیا  براہ کرم رہنمائی فرمائیں تو  بہت نوازش ہوگی  ۔

جواب

۱،۲۔صورت مسئلہ میں داماد  اگر غریب ہے اور صاحب نصاب ( ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت نقد کا مالک  بھی  نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت  سے زائد  اس مالیت  کی چیز  بھی نہ ہو ) نہیں ہے ،نیز  سیّد بھی نہیں ہے ، تو اس کو زکا ۃ دینا درست ہے  ، اس سے زکاۃ ادا ہو جائیگی اسی طرح  اگر زکاۃ  کی رقم سے سامان لے کر داماد  کو دیں ، تو اس صورت میں بھی زکاۃ  ادا ہو جائیگی ، اس طرح ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اور معاونت  بھی ہو جائیگی  ، البتہ بیٹی کو زکاۃ  نہیں دے سکتے ہیں ۔ 

لما في التاتار خانية:

وفي تجنيس خواهر زاده: ويجوز أن يعطي امرأة أبيه وابنه وزوج ابنته. (كتاب الزكاة، الفصل: من توضع فيه الزكاة: 3/211، مكتبة فاروقية، كوئته)

وفي الفقه الإسلامي وأدلته:

ويجوز دفع الزكاة لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته.

(كتاب الزكاة، سابعًا: شروط المستحقين: 3/1970، رشيدية)

وفي رد المحتار: ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته. (كتاب الزكاة، باب المصرف: 3/344، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/310