حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ

Darul Ifta

حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حجاج وقتِ مقررہ سے پہلے رقم جمع کراتے ہیں ،جس کے بعد قرعہ اندازی ہوتی ہے، جس میں بعض حضرات کے نام نکل آتے ہیں اور نام نکل آنے کے بعد رقم کی خاصی مقدار حکومت کی طرف سے واپس کی جاتی ہے، جب کہ قرعہ اندازی کے بعد اس جمع شدہ رقم(بعض حضرات کے)پر سال پورا ہوجاتا ہے تو کیا ساری رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟یا صرف واپس کی جانے والی رقم پر یا پوری رقم پر زکوٰۃواجب نہ ہوگی؟

جواب

حج کے لیے جمع کرائی ہوئی رقم پر قرعہ اندازی سے پہلے سال پورا ہوا تو پوری جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح اگر اس شخص کا نام نہ نکلے یا یہ کہ نکل آنے کے بعد کسی وجہ سے نہ جاسکے تو بھی پوری رقم پر زکوٰۃ فرض ہے، اگرچہ رقم ملنے سے پہلے زکوۃ کی ادائیگی واجب نہیں، اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے قرعہ اندازی ہوئی تو آمدورفت کا کرایہ اور معلم وغیرہ کی فیس کے لیے جو رقم جمع کرائی گئی ہو (جوکہ حکومت کی طرف سے کاٹی جاتی ہے) اس کو منہاکرنے کے بعد بقیہ رقم (جو کہ حکومت کی طرف سے کرنسی کی صورت میں واپس ملتی ہے) سال پورا ہونے سے پہلے ملے تو اختتام سال تک جو رقم خرچ کرنے کے بعد باقی بچے اس پر زکوٰۃ فرض ہے اور جو رقم خرچ کی گئی اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، لیکن اگر مذکورہ رقم سال پورا ہونے کے بعد ملے تو پوری رقم پر زکوٰۃ فرض ہے۔
''وسبب افتراضھا ملک نصاب حوليّ، نسبۃ حول لحولانہ علیہ''. (الدر المختار، کتاب الزکاۃ ٢/٢٥٩، سعید)
''وشرطہ أي شرط افتراض أدائھا حولان الحول وھو في ملکہ وثمنیۃ المال کالدراھم والدنانیر۔۔۔ فتلزم الزکاۃ کیفما أمسکھما ولو للنفقۃ''.(الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٧، سعید)
ما إذا أمسکہ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال الحول، وقد بقي معہ منہ نصاب فإنہ یزکي ذلک الباقي، وإن کان قصدہ الإنفاق منہ أیضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفہ إلی حوائجہ الأصلیۃ وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء: ٢/٢٦٢،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer