جس زمین پر پانی کا خرچہ نہ ہو اس پر عشر کا حکم

جس زمین پر پانی کا خرچہ نہ ہو اس پر عشر کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نہری زمین پر نصف عشر ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر نہری زمین ہو لیکن صرف ایک بار پانی لگایا ہو یا بالکل ہی لگانے کی نوبت نہ آئی ہو، وجہ یہ ہے کہ بارشیں زیادہ ہوگئیں اور فصل اسی سے تیار ہوگئی۔
۱…اس صورت میں اس خاص فصل پر عشر ہوگا یا نصف عشر؟
۲…اگر دریا کا پانی لگایا جارہا ہو لیکن پیسے نہ دیے جائیں، گویا کہ پانی پر خرچہ ہی نہیں ہوا، تو اس صورت میں عشر کتنا ہوگا؟

جواب

(۱،۲)جس زمین کو نہر یا دریا سے سیراب کیا جاتا ہو، اس پر نصف عشر نہیں، بلکہ عشر واجب ہوتا ہے ،البتہ اگر پانی کے لیے پیسے لیے جاتے ہوں، تو نصف عشر واجب ہوگا، اور اگر سال کا اکثر حصہ بغیر پیسوں کے سیراب کیا جاتا ہو، تو عشر واجب ہوگا۔
مسئولہ دونوں صورتوں میں چونکہ پانی کا خرچہ نہیں ہوا، اس لیے دونوں صورتوں میں عشر واجب ہوگا۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(یجب) العشر..... في (مسقی سماء) أي: مطر(وسیح) کنھر..... (و) یجب (نصفہ في مسقی غرب) أي: دلو کبیر (ودالیۃ) أي: دولاب لکثیرۃ المؤنۃ، وفي کتب الشافعیۃ: أو سقاہ بماء اشتراہ، وقواعدنا لاتأباہ، ولو سقی سیحا وبآلۃ اعتبر الغالب‘‘.
’’قولہ: (وقواعدنا لا تأباہ) کذا نقلہ الباقاني في شرح الملتقی عن شیخہ البھنسي؛ لأن العلۃ في العدول عن العشر إلی نصفہ في مسقی غرب ودالیۃ ھي زیادۃ الکلفۃ کما علمت، وھي موجودۃ في شراء الماء، ولعلھم لم یذکروا ذلک؛ لأن المعتمد عندنا، أن شراء الشرب لایصح، وقیل: إن تعارفوہ صح‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب العشر:3/ 316-313، رشیدیۃ)
وفي الفتاویٰ الھندیۃ:
’’وما سقي بالدولاب والدالیۃ ففیہ نصف العشر، وإن سقي سیحا وبدالیۃ یعتبر أکثر السنۃ، فإن استویا یجب نصف العشر کذا في خزانۃ المفتین‘‘. (کتاب الزکاۃ، الباب السادس:284/1، دارالفکر).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/124