تین طلاق دینے کے بعد صلح کرنے کا حکم

تین طلاق دینے کے بعد صلح کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فخر عباس ولد مہدی حسن قوم کھولھر سکنہ ساہیوال سرگودھا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے بتاریخ 16 ستمبر2022ء اپنی بیوی سے موبائل فون پر بات کرتے ہوئے اس کو تین مرتبہ طلاق دے دی، اگرچہ بیوی کا بیان ہے کہ سگنل کا مسئلہ بن گیا تھا اور اس نے میرے کہے ہوئے طلاق کے الفاظ نہیں سنے، اس کے بعد میں نے اپنے بھائی کو بتایا کہ میں نے طلاق دے دی ہے ،اس کے بعد میرے والد اور دادا نے بھی مجھ سے تصدیق کے لیے مجھ سے استفسار کیا اور الفاظ کی نوعیت پوچھی ،تو میں نے انہیں بھی اس بارے میں بتایا کہ طلاق دے دی ہے اور پھر ان کے سامنے تین مرتبہ تصدیق کے واسطے طلاق کے الفاظ دہرائے۔
اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ جب کہ ہم دوبارہ صلح چاہتے ہیں۔
وضاحت:’’ میں نے تمہیں طلاق دی، اپنے اوپر حرام کیا‘‘، تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ (فخر عباس) کے بیان کے مطابق چوں کہ آپ نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ مذکورہ الفاظ (میں نے تمہیں طلاق دی، اپنے اوپر حرام کیا) کہے، جس سے آپ کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اگرچہ آپ کی بیوی کو سگنل وغیرہ کی وجہ سے آواز سنائی نہ دی تھی، کیوں کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے عورت کا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نہیں ہے۔
مزید اس پر یہ کہ آپ نے اپنی طلاق دینے کا کئی لوگوں کے سامنے اقرار بھی کیا ہے، لہذا صورت مذکورہ میں آپ کی بیوی کو تین طلاق واقع ہوکر آپ پر حرام ہوچکی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع ممکن ہے نہ ہی تجدید نکاح۔
لما في التنزیل:
«فَإِنْ طَلَّقَھا فَلَا تَحِلُّ لَہ، مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ،».(سورۃ البقرۃ،الآیۃ:٢٣٠)
وفي البدائع:
’’وأما الطلقات الثلاث: فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیۃ أیضا حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عزوجل:«فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ» وسواء طلقھا ثلاثا متفرقا أو جملۃ واحدۃ‘‘.(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن: ٤/ ٤٠٣:دار الکتب العلمیۃ)
وفي التاتارخانیۃ:
’’وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرۃ، أو ثنتین في الأمۃ، لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا والشرط الإیلاج دون الإنزال‘‘.(کتاب الطلاق، الفصل الثالث والعشرون: ٥/ ١٤٨:مکتبہ فاروقیہ)
وفي الدر المختار:
’’ومن الألفاظ المستعملۃ: الطلاق یلزمني، والحرام یلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فیقع بلا نیۃ للعرفص‘‘.(کتاب الطلاق، مطلب في قول البحر: إن الصریح یحتاج في وقوعہ دیانۃ إلی النیۃ: ٤/ ٤٥٠:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/316