تین طلاقوں کو قیمت کی ادائیگی کے ساتھ معلق کرنا

تین طلاقوں کو قیمت کی ادائیگی کے ساتھ معلق کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عصر کے بعد ہم کچھ ساتھی بیٹھے تھے، میں نے ایک ساتھی پر موٹر سائیکل فروخت کی، موٹر سائیکل کی چابی اور کاغذات اس کے حوالے کیے اور قیمت کے متعلق یہ طے ہوا کہ دس ہزار روپے نقد دوں گا اور بقیہ بعد میں ماہانہ دس ہزار کے حساب سے دوں گا، اس کے بعد میں مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا، مشتری نےساتھیوں کے سامنے میری عدم موجودگی میں قرآن اٹھایا اور کہا کہ: اگر میں نے اس کو (بائع) پیسے دیے مجھ پر بیوی تین طلاقوں کے ساتھ مطلقہ ہے، باقی یہ تعیین نہیں کی کہ کل پیسے دے دوں یا جب بھی دوں، اس نے مطلق بولا تھا، پھر اس کے بعد جب میں نے اس سے دس ہزار نقد رقم کا مطالبہ کیا، تو اس نے پھر بھی میرے سامنے وہی الفاظ دہرائے، اور دس ہزار روپے دیے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ از روئے شریعت مشتری کی زوجہ کو کتنی اور کون سی طلاق واقع ہوئی ہے؟ یاطلاق واقع نہیں ہوئی؟
برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

جواب

صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے چوں کہ مشتری نے طلاق کو مطلق رقم کی ادائیگی کے ساتھ معلق کیا تھا، تو پوری قیمت مراد ہوگی، لہذا جب مشتری نے دس ہزرا روپے ادا کردیے تو طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ جب مکمل قیمت ادا ہوجائے گی (چاہے اکٹھا ادا کرے یا قسطوں میں) تو تین طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی۔
لما في بدائع الصنائع:
’’ولو قال: أنت طالق في أکلک ھذا الرغیب لا یقع الطلاق ما لم تفرغ من أکل جمیع الرغیف، والفرق أن في المسألۃ الأولی: دخلت کلمۃ الظرف علی الزمان، وھو یصلح ظرفا، فجعل جمیع الوقت ظرفا لکونھا طالقا، ولا یکون کذلک إلا إذا کان وقع الطلاق في أولہ.
وفي الثانیۃ: علق الطلاق بفعل الأکل، والمعلق بالرط لا ینزل ما لم ینزل کمال شرطہ، وما یقولہ مشایخنا: إن الطلاق متی أضیف إلی وقت ممتد یقع عند أولہ، ومتی علق بفعل ممتد یقع عند آخرہ، ھذا صورتہ وعلتہ‘‘.(کتاب الإیمان، فصل في الیمین بغیر اللہ عز وجل: ٤/ ٦٣:مکتبۃ رشیدیۃ)
وفي الذخیرۃ البرھانیۃ:
’’ولو قال: إن تزوجت وإن أمرت من یزوجنیھا، فھي طالق، فأمر فزوجھا منہ، لم تطلق؛ لأن الیمین واحدۃ، والشرط شیأان الأمر والتزوج، فبمجرد الأمر لا تنحل الیمین وکذلک لو تزوجھا من غیر أن یأمر أحدا بذلک، لا تطلق؛ لأنہ بعض الشرط فإن أمر بعد ذلک رجلا، فقال: زوجني فلانۃ، وھي امرأتہ علی حالھا، طلقت؛ لأنہ کمل الشرط‘‘.(کتاب الطلاق، الفصل العاشر في التعلیقات: ٤/ ١٠٣:دار الکتب العلمیۃ)
وفیھا أیضا:
’’وإذا کان الطلاق معلقا بشرط واحد، فوجد بعض الشرط في نکاحہ ووجد البعض وھي لیست في نکاحہ، ولا عدتہ ثم تزوجھا بعد ذلک، إن وجد أول الشرط في نکاحہ ووجد آخر الشرط بعد ما أبانھا وانقضت عدتھا، ثم تتزوجھا لا یقع الطلاق‘‘.(کتاب الطلاق، الفصل العاشر في التعلیقات: ٤/ ١٣٠:دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/03