تراویح کے عوض میں پیسے لے کر تعمیرمسجد میں خرچ کرنے کا حکم

تراویح کے عوض میں پیسے لے کر تعمیرمسجد میں خرچ کرنے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح میں قرآن مجید سنا کر پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ عوض اور اجرت سمجھ کردیے ،یا لیے نہ جائیں ،بلکہ ہدیہ کے طور پر لیے اور دیے جائیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو پھر اس صورت میں کیا کیا جائے، جب کسی مسجد والے اس پر راضی نہ ہوں؟ کیا وہ پیسے لے کر تعمیرِ مسجد یا کسی رفاہی کام میں دے دیے جائیں، یا اپنی ذات  کے لیے استعمال جائز ہے ؟

جواب

تراویح میں قرآن مجید سنا کر اُجرت لینا حرام اور ناجائز ہے،ہدیہ کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہے اور اجرت طے کرنے کی نسبت زیاد ہ قبیح ہے، اس لیے کہ اس میں دو گناہ ہیں، ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالتِ اجرت کا گناہ ۔
فتاویٰ شامی میں لکھا ہے کہ اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے، اس لیے کہ تراویح میں چند مختصر صورتوں سے بیس رکعت پڑھنا ،بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر یا لے کر قرآن سنائیں، کیوں کہ ختم قرآن تراویح میں مستحب ہے اور اجرت دے کر یا لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے اور گناہ سے بچنا بہ نسبت مستحب پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے اور بحکم المعروف کالمشروط جب کہ نیت دینے یالینے کی ہو، وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے ،اگر کسی مجبوری کی بنا پر لے لیا تو اس کو خود استعمال کرنا تو درست نہیں، لے کر وہ رقم صدقہ کرنا واجب ہے ۔
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقرء ۃ وإعطاء الثواب للآمر، والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا.(رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر فھم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ الخ: ٩/٩٥، حقانیۃ پشاور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی