تراویح کی قراءت میں غلطی کرنے کا حکم

تراویح کی قراءت میں غلطی کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر تراویح میں کوئی ایسی غلطی کریں جس سے معنی بالکل الٹ جائے (مثلاً: ’’وما أنا من المشرکین‘‘ کے بجائے: ’’وما أنا من المسلمین‘‘ پڑھ دیا )اور اگلے دن اس بارے میں معلوم ہوا تو کیا حکم ہے؟ آیا کہ ان دو رکعتوں کی قراءت دہرانا ہوگی کہ جس میں غلطی ہوئی؟ اور کیا ان رکعتوں کی بھی قضا کرنی ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر نماز میں اس حد تک غلطی ہوجائے ،کہ معنی بالکل غلط ہوجائے اور اس معنی کا اعتقاد رکھنا کفر ہو، تو ایسی غلطی سے نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ اگر اتنی فحش غلطی نہ کی ہو، جس سے معنی میں اتنی خرابی نہ آتی ہو، تو نماز فاسد نہیں ہوگی، لہٰذا صورت مسئولہ میں نماز فاسد ہوگئی ہے، جن دو رکعت میں غلطی ہوئی ہے، وقت کے بعد ان کا اعادہ ممکن نہیں ہے، البتہ اگلےدن قرأت کا اعادہ کرلے، تاکہ تکمیل قرآن کی سنت ادا ہوجائے۔
لما في رد المحتار:
’’والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا یکون اعتقادہ کفرا یفسد في جمیع ذلک‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في زلۃ القاري:473/2،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/211