تراویح کی رکعات سے متعلق مقتدیوں کا اختلاف کا حکم

تراویح کی رکعات سے متعلق مقتدیوں کا اختلاف کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح کی رکعت میں امام کو شک ہوگیا کہ اٹھارہ ہوئی ہیں یا بیس ؟اور مقتدیوں میں بھی اختلاف ہے اور امام مقتدیوں میں سے کس کی بات پر یقین بھی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں امام کیا کرے؟

جواب

جب یہ صورت پیش آئے تو سمجھا جائے کہ گویا سب لوگ شک میں مبتلا ہیں جس کا حکم یہ ہے کہ بجائے جماعت کے سب لوگ فرداً فرداً دو رکعت تراویح پڑھیں جس میں انہیں شک ہوا ہے ۔(کبیر ی ص٣٨٧)

إذا سلم الإمام في ترویحۃ فقال: بعض القوم: صلی ثلاث رکعات وقال بعضہم: صلی رکعتین یأخذ الإمام بما کان عندہ في قول أبي یوسف ـ رحمہ اللّٰہ تعالی ـ وإن لم یکن الإمام علی یقین یأخذ بقول من کان صادقا عندہ (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: فصل في الشک في التراویح: ١/٢٣٩، رشیدیۃ)
وکذا إذا کان الإمام وحدہ في طرف وھو متیقن عمل بما عندہ ولا یلتفت إلی قول الجماعۃ، وإن شک عمل بقولھم، وإن اختلف القوم ولم یکن للإمام یقین یأخذ بقول من ھو صادق عندہ ۔(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل، التراویح: ص: ٤٠٦، سھیل اکیڈمی، لاہور)
(٤) وإن وقع الشک أنہ صلی تسع تسلیمات أوعشر تسلیمات۔۔۔وھاھنا یصلون التسلیمۃ الأخری بنیۃ إتمام التراویح.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: فصل في الشک في التراویح: ص:١/٢٣٩، رشیدیۃ)
وإذا أشکوا أي اللإمام والقوم في أنھم ھل صلوا تسع تسلیمات ثماني عشر رکعۃ أو عشر تسلیمات ففیہ أي في حکم ھذا الشک اختلاف ۔۔۔والصحیح أنہم یصلون بتسلیمۃ أخری۔۔۔فرادی للاحتیاط في الموضعین إکمال التراویح بیقین والاحتراز عن التنفل الزائد علیھا بالجماعۃ ھذا إذا اتفق الکل علی الشک (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل، التراویح: ص:٤٠٥، سھیل اکیڈمی لاہور)
اقتدی بہ علی ظن أنہ في التراویح، فإذا ھو في الوتر یتمہ معہ ویضم إلیھا رابعۃ ولو أفسدھا لاشيئ علیہ ۔(الحلبی الکبیر: فصل في النوافل، التراویح: ص: ٤١٠، سھیل اکیڈمی، لاہور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی