تراویح پر اجرت لینے کا حکم

تراویح پر اجرت لینے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (۱)اجرت دے کر تراویح پڑھوانا کیسا ہے ؟بعض حفاظ صاف صاف معاملہ کرتے ہیں، بعض کچھ نہیں کہتے ،مگر لینے کی نیت ہوتی ہے، کسی جگہ متولی صاحب کہہ دیتے ہیں ،اپنی خوشی سے جو چاہیں گے دے دیں گے تو کیا اس طرح کی اجرت کی تعیین مشروط یا معروف طور پر شرعاً درست ہے؟
(۲)بعض جگہ رقم کے علاوہ جوڑا بھی بنا کر دیتے ہیں اور بعض مساجد میں ختم القرآن کے موقع پر یا اس سے پہلے تراویح پڑھانے والے کی امداد کرنے کے لیے لوگوں سے باقاعدہ چندہ جمع کیا جاتا ہے اور امام کو دے دیا جاتا ہے، اس کے لینے کا حکم ہے ؟
(۳)بعض لوگ انفرادی طور پر تنہائی میں امام صاحب کی کچھ مدد کردیتے ہیں، پہلے سے کچھ طے نہیں ہوتا ،نہ ملنے کی امید ہوتی ہے تو اس کا لینا جائز ہے یا نہیں ؟نیز حافظ منتظمین سے اپنی آمد ورفت کا خرچہ لے سکتا ،یا اگر دوسرے شہر میں جائے اور وہاں قیام کا خرچہ بھی لے سکتا ہے نہیں؟

جواب

(۱،۲)ان تمام صورتوں میں تراویح میں کلام پاک پڑھنے کی اجرت خواہ مشروط ہو یا معروف ہو،جیسا کہ عام طور پر رائج ہے کہ کسی نہ کسی عنوان سے لینا لازم سمجھا جاتا ہے اور حفاظ بھی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں زیادہ ملنے کی امید ہو ،حتی کہ اگر دوسرے شہر جانا پڑے تو برداشت کرتے ہیں اور اگر کسی جگہ کچھ امید ملنے کی نہ ہو تو وہاں نہیں جاتے،بلانے پر بھی عذر کر دیتے ہیں اور زبان سے نہ کہیں مگر دل میں ملنے یالینے کی نیت ہوتی ہے، تو ان سب صورتوں میں ہدیہ ،چندہ اور اعانت کے عنوان سے جو کچھ نقدی یا جوڑا دیا جاتا ہے،ان کا لینا حرام ہے ،کیوں کہ قرآن کریم پڑھنا عبادت ہے اور عبادت پر اجرت لینا حرام ہے ،بعض حضرات اس کو اذان و اقامت اور تعلیم ووعظ پر قیاس کر کے جائزکہتے ہیں ،مگر ان کا یہ قیاس غلط ہے، کیوں کہ اصل مسئلہ ان میں بھی عدمِ جوازہی کا ہے، مگر متاخرین فقہاء نے ضرورتِ شرعی کی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیا ہے اور تراویح میں قرآن سنانا ضروریاتِ دین سے نہیں، لہٰذا اس کی اجرت حرام رہے گی۔
(۳) اگر کسی حافظ نے خالص اللہ کی رضا کے لیے قرآن سنایا اور معروف یا مشروط طور پر کچھ نہ ٹھہرایا اور نہ لینے کا کوئی ارادہ تھا، پھر اتفاق سے کسی نے چپکے سے کچھ پیش کر دیا تو اس کا لینا درست ہے، یہ حکم اجرت میں داخل نہیں ہے، نیز حافظ کو اپنی آمد ورفت کا خرچ اور بصورتِ قیام ،قیام کا خرچہ لینا درست ہے۔
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقرء ۃ وإعطاء الثواب للآمر، والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا.(رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر فھم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ الخ: ٩/٩٥، حقانیۃ پشاور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی