تراویح میں تیز قراءت کرنے والے امام کی اقتداء کا حکم

تراویح میں تیز قراءت کرنے والے امام کی اقتداء کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  بعض جگہوں پرنمازِ تراویح میں روزانہ پانچ پارے پڑھے جاتے ہیں، ان میں قرآنِ مجید اس تیز رفتاری کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کہ اس کے الفاظ کی صحیح طور پر ادائیگی نہیں ہو پاتی، کچھ اماموں کی تلاوت اس قدر تیز ہوتی ہے کہ پیچھے کھڑے حافظ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ امام صاحب کیا پڑھ رہے ہیں، رکوع اور سجدے بھی اس طرح سے کیے جاتے ہیں کہ ان میں تسبیح نہیں پڑھی جاتی، قعدہ میں اکثر نمازی التحیات ہی پڑھ پاتے ہیں، درود اور اس کے بعد دعا کا موقع نہیں ملتا، ایسا لگتا ہے جیسے نمازِ تراویح کوئی بوجھ ہے جس کو کسی طرح اپنے کاندھوں پر سے اتارا جا رہا ہے،لہٰذا اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی نمازِ  تراویح پڑھانے والے امام اور اس کے پیچھے نماز تراویح پڑھنے والے مقتدی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رمضان المبارک میں ایک مرتبہ قرآن پاک کو ختم کرنا سنت ہے، اس سے زیادہ فضیلت کاباعث ہے، لیکن ختم قرآن میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے ،کہ صحت حروف اور مخارج کی رعایت ہو، اور رفتار بھی تیز نہ ہوکہ الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوجائیں اور معنی بدل جائے، اس لیے حضرات علمائے کرام نے تیز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے، اسی طرح مقتدیوں کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ اس طرح پڑھے اور اتنی مقدار میں پڑھے کہ ان پر گراں نہ گزرے اور نماز میں جتنے بھی سنن اور واجبات ،جیسے : درود اور تسبیحات ہیں ان کی رعایت کرنا ضروری ہے، لہٰذا مقتدیوں کو چاہیے کہ کسی ایسے امام کے پیچھے تراویح پڑھیں جو ان تمام باتوں کی رعایت کرے اور جو ان کی رعایت نہ کرے، ان کو امام نہ بنایا جائے۔
لما في الدر مع الرد:
’’والختم مرۃ سنۃ، ومرتین فضیلۃ، وثلاثا أفضل‘‘.
’’قولہ: (والختم مرۃ سنۃ) أي: قراءۃ الختم في صلاۃ التراویح سنۃ وصححہ في الخانیۃ وغیرھا وعزاہ في الھدایۃ إلی أکثر المشایخ ، وفي الکافي إلی الجمھور‘‘. (کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح: 601/2، رشیدیۃ)
وفي البدائع:
’’وأما في زماننا: فالأفضل: أن یقرأ الإمام علی حسب حال القوم من الرغبۃ والکسل، فیقرأ قدرما لایوجب تنفیر القوم عن الجماعۃ‘‘. (کتاب الصلاۃ، فصل في سننھا:276/2،رشیدیۃ).
وفي الھندیۃ:
’’ویکرہ الاسراع في القراءۃ وفي أداء الأرکان کذا في السراجیۃ ، وکلما رتل فھو حسن کذا في فتاویٰ قاضي خان‘‘. (کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح: 118/1، مکتبہ ماجدیۃ).
وفي فتح القدیر:
’’(حیث یترکھا) إذا علم أنھا تثقل علی القوم بخلا ف الصلاۃ لایترکھا ؛ لأنھا فرض أو سنۃ ولا یترک السنن للجماعات کالتسبیحات‘‘. (کتاب الصلاۃ، باب في قیام رمضان:486/1، دارالکتب العلمیۃ بیروت).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/204