تراویح میں تعداد رکعات میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کا حکم

تراویح میں تعداد رکعات میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام نے دورکعت تراویح پڑھ کر جب سلام پھیرا تو مقتدیوں میں اختلاف ہوا، بعض کہتے ہیں دو رکعت ہوئیں، بعض کہتے ہیں تین ہوئیں، تو اب امام کس کی بات مانے اور اگر امام کو بھی شک ہوجائے تو کس کی بات پر عمل کرے۔

جواب

اگر امام کو یقین ہے کہ دو رکعت ہوئی ہیں تب تو امام ہی کی بات معتبر ہوگی، مقتدیوں کی بات کا اعتبار نہ ہوگا، لیکن اگر خود امام کو شک ہوجائے تو مقتدیوں کی بات پر عمل کیا جائے گا، لیکن اگر مقتدیوں میں بھی آپس میں اختلاف ہے تو اس صورت میں مقتدیوں میں سے جو لوگ امام کے نزدیک سچے اور قابل اعتبار ہیں ان کی بات مانی جائے گی۔

إذا سلم الإمام في ترویحۃ فقال: بعض القوم: صلی ثلاث رکعات وقال بعضہم: صلی رکعتین یأخذ الإمام بما کان عندہ في قول أبي یوسف ـ رحمہ اللّٰہ تعالی ـ وإن لم یکن الإمام علی یقین یأخذ بقول من کان صادقا عندہ (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: فصل في الشک في التراویح: ١/٢٣٩، رشیدیۃ)
وکذا إذا کان الإمام وحدہ في طرف وھو متیقن عمل بما عندہ ولا یلتفت إلی قول الجماعۃ، وإن شک عمل بقولھم، وإن اختلف القوم ولم یکن للإمام یقین یأخذ بقول من ھو صادق عندہ ۔(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل، التراویح: ص: ٤٠٦، سھیل اکیڈمی، لاہور)
وإن وقع الشک أنہ صلی تسع تسلیمات أوعشر تسلیمات۔۔۔وھاھنا یصلون التسلیمۃ الأخری بنیۃ إتمام التراویح.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: فصل في الشک في التراویح: ص:١/٢٣٩، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی