تجارت کی غرض سے خریدا گیا مکان فروخت نہ ہو تو زکوٰۃ کس پر ہوگی؟

Darul Ifta

تجارت کی غرض سے خریدا گیا مکان فروخت نہ ہو تو زکوٰۃ کس پر ہوگی؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے ایک مکان اس نیت سے خریدا کہ وہ اس مکان کو بیچ کر نفع کمائے گا، اور جب تک نہ بِکے، اس مکان کو کرایہ پر دے گا، سو زکوٰۃ دینے کے وقت اس مکان میں تجارت کا اعتبار ہوگا، یا اجارہ کا؟ جزاکم اللہ خیرا

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ خریدتے وقت تجارت کی نیت تھی اور کرایہ پر دیتے ہوئے بھی وہ نیت برقرار ہے، لہٰذا وہ مکان مال تجارت شمار ہوگا اوراس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
لما في الدر مع الرد:
’’(وشرطہ) أي: شرط افتراض أدائھا (حولان الحول) ... (أو نیۃ التجارۃ) في العروض، إما صریحا: ولا بد من مقارنتھا لعقد التجارۃ کما سیجيء ، أو دلالۃ: بأن یشتري عینا بعرض التجارۃ، أو یؤاجر دارہ التي للتجارۃ بعرض فتصیر للتجارۃ بلا نیۃ صریحا‘‘.
قولہ: (أو یؤاجر دارہ إلخ) قال في البحر: لکن ذکر في البدائع الاختلاف في بدل منافع عین معدۃ للتجارۃ، ففي کتاب زکاۃ الأصل أنہ للتجارۃ بلا نیۃ، وفي الجامع ما یدل علی التوقف علی النیۃ، وصحح مشایخ بلخ روایۃ الجامع؛ لأن العین وإن کانت للتجارۃ لکن قد یقصد ببدل منافعھا المنفعۃ، فتؤجر الدابۃ لینفق علیھا، والد للعمارۃ فلا تصیر للتجارۃ مع التردد إلا بالنیۃ ۱ھ، وقید بقولہ التي للتجارۃ؛ إذ لو کانت للسکنی مثلا: لایصیر بدلھا للتجارۃ بدون النیۃ، فإذا نوی یصح، ویکون من قسم الصریح‘‘. (کتاب الزکاۃ، سبب لزوم أدائھا: 221/3، رشیدیۃ)
(وکذا في شرح الحموي علی الأشباہ والنظائر: القاعدۃ الأولیٰ: لاثواب إلا بالنیۃ:50/1، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:178/234)

footer