بریلوی اور فاسق امام کی اقتداء کا حکم

بریلوی اور فاسق امام کی اقتداء کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی گاؤں کی مسجد میں مذکورہ عقائد رکھنے والا امام ہو، داڑھی کاٹنا گناہ نہیں ہے اور خود اپنی داڑھی بھی کاٹتا ہے اور کہتا ہے کہ داڑھی اتنی ہو، جس سے مرد وزن کا فرق کیا جاسکے، تیرہ قدم یعنی کچھ فاصلے سے نظر يئے اور عقائد سارے بریلویوں والے ہیں، تو کیا عوام بالخصوص علماء کا اس کے پیچھے مستقل نماز پڑھنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو اعادہ کیا جائے گا؟
نوٹ: اگر گاؤں کا کوئی عالم اس کو مسجد سے نکالنے پر اتر آئے تو انتشار کا اندیشہ ہے، اسی طرح اگر گاؤں کا یہ عالم اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرے ،تو بھی انتشار کا اندیشہ ہے، تو کیا یہ عالم اس امام کے پیچھے تشبہ بالمصلین کرے، اور بعد میں اعادہ کرے تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟

جواب

بریلوی امام اگر شرکیہ عقائد کا حامل ہے، تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا بالکل جائز نہیں، اور اگر عقائد شرکیہ نہ ہوں تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اور داڑھی کاٹنے والا فاسق ہے، اور فاسق کی امامت بھی مکروہ تحریمی ہے، لہذا حتی الامکان ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے احتراز کیا جائے، اور کسی دوسری مسجد میں صحیح العقیدہ شخص کی اقتداء میں نماز پڑھی جائے، البتہ اگر فتنہ وانتشار کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
لما في الدر مع الرد:
’’وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ، ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، والآخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم.فتح‘‘.(کتاب الصوم: ٣/ ٤٥٦:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’(ویکرہ) تنزیھا (إمامۃ عبد)........ (وفاسق وأعمی) ونحوہ الأعشی.نہر.....(إلا أن یکون) أي: غیر الفاسق (أعلم القوم) فھو أولی (ومبتدع) أي:صاحب بدعۃ، وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول‘‘.
’’(قولہ:وفاسق) من الفسق، وھو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، کذا في البرجندي إسماعیل.وفي المعراج قال أصحابنا: لا ینبغي أن یقتدي بالفاسق إلا في الجمعۃ؛ لأنہ في غیرھا یجد إماما غیرہ اھـ. قال في الفتح: وعلیہ فیکرہ في الجمعۃ إذا تعددت إقامتھا في المصر علی قول محمد المفتی بہ؛ لأنہ بسبیل إلی التحول‘‘.(کتاب الصلاۃ، ٢/ ٣٥٥:رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’قولہ:(وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولد الزنا) بیان للشیئین الصحۃ والکراھۃ: أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأھلیۃ للصلاۃ مع أداء الأرکان وھما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث ’’صلوا خلف کل بر وفاجر‘‘،وفي صحیح البخاري أن ابن عمر کان یصلي خلف الحجاج وکفی بہ فاسقا ،کما قالہ الشافعي.وقال المصنف: إنہ أفسق أھل زمانہ وقال الحسن البصري: لو جاء ت کل أمۃ بخبیثاتھا وجئنا بأبي محمد لغلبناھم...... فإن أمکن الصلاۃ خلف غیرھم فھو أفضل وإلا فالاقتداء أولی من الانفراد‘‘.(کتاب الصلاۃ، ١/ ٦١٠:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/167