بالغہ عاقلہ عورت سے اجازت طلب کیے بغیر والد کا نکاح کرانے کا حکم

بالغہ عاقلہ عورت سے اجازت طلب کیے بغیر والد کا نکاح کرانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں کچھ نکاح اس طریقے پر پڑھائے گئے کہ ان میں بالغہ عاقلہ لڑکیوں سے نکاح کے و قت رضامندی معلوم نہیں کی گئی، اور ان کا نکاح ان کے والد نے پڑھالیا، جس کا طریقہ یہ تھا کہ مولوی صاحب لڑکی کے والد صاحب سے پوچھتے کہ: تم نے اپنی بیٹی فلاں کے نکاح میں دی؟ لڑکی کا والد کہتا کہ: جی! میں نے اپنی بیٹی فلاں کے نکاح میں دی۔
مذکورہ طریقہ کار کے متعلق بہت سے لوگ یہ اعتراض کررہے ہیں کہ مذکورہ نکاح لڑکی کی رضامندی کے بغیر کروائے جارہے ہیں، کیا اس طرح نکاح کروانے میں شرعا کوئی قباحت ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں والد کے نکاح کرانے کی صورت میں اگر بالغہ عاقلہ لڑکی کو اطلاع پہنچ جائے اور وہ خاموش رہی، تو یہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔
لما في بدائع الصنائع:
’’ولنا ما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: تستأمر النساء في أبضاعھن، فقالت عائشۃ رضي اللہ عنھا أن البکر تستحي یا رسول اللہ، فقال صلی اللہ علیہ وسلم:’’إذنہا صماتھا‘‘، وروی :’’سکوتھا رضاھا‘‘ ،وروی: ’’سکوتھا إقرارھا‘‘وکل ذلک نص في الباب وروي البکر تستأمر في نفسھا فإن سکتت فقد رضیت وھذا أیضا نص، ولأن البکر تستحي عن النطق بالإذن في النکاح لما فیہ من إظھار رغبتھا في الرجال، فتنسب إلی الوقاحۃ فلو لم یجعل سکوتھا إذنا ورضا بالنکاح دلالۃ وشرط استنطاقھا وإنھا لا تنطق عادۃ لفاتت علیھا مصالح النکاح مع حاجتھا إلی ذلک وھذا لا یجوز وقولہ السکوت یحتمل مسلم لکن ترجح جانب الرضا علی جانب السخط؛ لأنھا لو لم تکن راضیۃ لردت؛ لأنھا إن کانت تسحي عن الإذن، فلا تستحي عن الرد فلما سکتت ولم ترد دل أنھا راضیۃ‘‘.(کتاب النکاح: ٣/ ٣٦٠:رشیدیۃ)
وفي الأشباہ:
’’وخرجت عن ھذہ القاعدۃ مسائل کثیرۃ، یکون السکوت فیھا کالنطق: الأولی: سکوت البکر عند استئمار ولیھا قبل التزویج وبعدہ. الثانیۃ: سکوتھا عند قبض مھرھا .الثالثۃ: سکوتھا إذا بلغت بکرا.الرابعۃ: حلفت أن لا تتزوج فزوجھا أبو ھا، فسکتت حنثت‘‘.(القاعدۃ الثانیۃ عشر:لا ینسب إلی ساکت قول:٣٨٢: إدارۃ القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:176/309