ایک گواہ کی موجودگی میں عقد نکاح کا حکم

ایک گواہ کی موجودگی میں عقد نکاح کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا سوال نکاح کے بارے میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ: اگر ایک لڑکا اور لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر ایک گواہ کے سامنے ایجاب اور قبول کریں اور دوسرا گواہ فون کال پر سن رہا ہو اور نکاح سے پہلے شرعی حق مہرمقر رنا کیا ہو، لیکن ایجاب اور قبول کے بعد لڑکی یہ کہے کہ ’’میں نے حق مہر معاف کیا‘‘، تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟ یاد رہے کہ دوسرے گواہ کو لڑکا اور لڑکی نہیں جانتے، نا کبھی اس سے ملے ہیں جو فون پے ہے، وہ اس پہلے گواہ کا دوست ہے جسے اسی وقت کال کی گئی ہے۔
شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

نکاح کے انعقاد کے لیے کئی شرائط ہیں، ان شرائط میں سے ایک شرط دو عاقل بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا بطور گواہ مجلس نکاح میں موجود ہونا ہے، چوں کہ صورت مسئولہ میں صرف ایک گواہ نکاح کی مجلس میں موجود تھا، دوسرا گواہ فون پر سُن رہا تھا، جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہذا مذکورہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔
لما في الدر مع الرد:
’’(و) شرط (حضور) شاہدین (حرّین) حر وحرتین (مکلفین) سامعین قولھما معا علی الأصح (فاہمین) أنہ نکاح علی المذہب بحر (مسلمین) لنکاح مسلمۃ ولو فاسقین‘‘.
(کتاب النکاح، مطلب الخصاف کبیر في العلم یجوز والاقتداء بہ، ٤/ ٩٩، ١٠٠:رشیدیۃ)
وفي البدائع:
’’ومنہا: العدد، فلا ینعقد النکاح بشاہد واحد لقولہ علیہ السلام: لا نکاح إلا بشہود، وقولہ: لا نکاح إلا بشاہدین، وأما ۔۔۔۔۔۔ وأمابیان وقت ھذہ الشہادۃ، وھي حضور الشہود فوقتہا وقت وجود رکن العقد، وھو الإیجاب والقبول لا وقت وجود الإجازۃ، حتی لو کان العقد موقوفا علی الإجازۃ فحضروا عقد الإجازۃ، ولم یحضروا عند العقد لم تجز؛ لأن الشہادۃ شرط رکن العقد فیشترط وجودھا عند الرکن‘‘.(کتاب النکاح، فصل في بیان وقت الشہادۃ: ٣/ ٤٠١- ٤٠٥: رشیدیۃ)
وفي الہدایۃ:
’’ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل وامرأتین عدولا کانوا أو غیر عدول أو محدودین في القذف‘‘.(کتاب النکاح: ٢/ ٢٨٦: رشیدیۃ).فقط. واللہ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 173/93