ایک ،تین یا سات راتوں میں تراویح میں قرآن ختم کرنا

ایک ،تین یا سات راتوں میں تراویح میں قرآن ختم کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل بعض شہروں میں کسی جگہ ایک رات میں تراویح کے اندر قرآن کریم ختم کیا جاتا ہے اور بعض جگہ تین راتوں میں اور بعض جگہ سات راتوں میں اس کا کیا حکم ہے ؟،

جواب

اگر ایک رات میں یا تین یا سات راتوں میں تراویح کے اندر قرآن کریم قواعدِ تجوید کے مطابق صاف صاف اور بالکل صحیح طریقہ سے پڑھا جائے ،حروف کاٹے نہ جائیں اور صرف یعلمون تعلمون سنائی نہ دے ،بلکہ کلامِ پاک اچھی طرح سامعین کی سمجھ میں آئے اور نمازی خوشدلی سے اس میں شریک ہو ں تو اس طرح ختم کرنا جائز ہے ،شرعاً کچھ مضائقہ نہیں ہے،لیکن اگر قرآن کریم صاف اور صحیح نہ پڑھا جائے ،حروف کٹنے لگیں، سامعین کو سوائے یعلمون تعلمون کے کچھ سمجھ میں نہ آئے جیساکہ بعض جگہ صورتحال اسی طرح ہے تو پھر اس طرح پڑھنا درست نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔
ویکرہ الإسراع في القراء ۃ وفي أداء الأرکان کذا في السراجیۃ وکلما رتل فھو حسن والأفضل في زماننا أن یقرأ بما لایؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلھم لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القرأء ۃ.(الھندیۃ:کتاب الصلاۃ،فصل في التراویح:١/١١٨،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی