ہمارےزمانے کے اعتبار سے مباہلہ کا حکم

ہمارےزمانے کے اعتبار سے مباہلہ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ایک مدرسے میں قاری صاحب نے ایک بچے کو پائپ سے مارا، اس دوران پائپ بچے کے بازو پر لگا اور بچے نے ہاتھ پر گھڑی پہنی ہوئی تھی ، جو کہ پائپ لگنے سے ٹوٹ گئی، چناں چہ بچہ اپنے گھر چلا گیا اس کے بعد بچہ اپنے والد کے ساتھ مدرسہ آیا اور اس کے والد نے مدرسہ کے ذمہ داران ، ناظم اور قاری صاحب کو برا بھلا کہا اور ساتھ ہی گھڑی کا ضمان بھی مانگا، چناں چہ مدرسہ والوں نے بچہ کے والد سے معافی بھی مانگی اور ضمان بھی دیا، پھر وہ دونوں گھر چلے گئے۔
اس کے بعد بچے کے والد نے مدرسہ اور اس کے ذمہ داران سے متعلق بد گمانی پھیلانی شروع کردی، جہاں بھی جاتا مدرسہ کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کرتا، جب مدرسہ والوں نے اس کو اس بات سے منع کیا تو اس بچے کے والد نے مباہلہ کا چیلنج کیا، اور ساتھ ہی قرآن مجید کی آیت «وَالْخَامِسَۃُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَیْہِ إِن کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْن»، «وَالْخَامِسَۃَ أَنَّ غَضَبَ اللَّہِ عَلَیْھَا إِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ».(سورۃ النور: 7,9) کو دلیل بنا کر بھی پیش کرتا ہے، جب کہ مدرسہ والوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر مباہلہ ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا بچے کے والد کا قاری صاحب سے ضمان لینا، مباہلہ کا مطالبہ کرنا اور قرآن کی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرنا ٹھیک ہے کہ نہیں؟از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

حدیث شریف میں ہے:’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں) لہٰذا صورت مسئولہ میں جب مدرسہ والوں نے معافی بھی مانگی، ضمان بھی دیا، تو اب لڑکے کا والد مدرسہ والوں کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہے، تو یہ ظلم کے زمرے میں آئے گا۔
سوال میں آیات مذکورہ مسئلہ لعان سے متعلق ہے نہ کہ مباہلہ سے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی آخری تحریر ’’بوادر النوادر‘‘ میں، مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے ’’احسن الفتاوی‘‘ میں، مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ نے ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں، اس زمانے میں مباہلہ نا جائز ہونے کا لکھا ہے۔
مدرسہ والے بھی بچوں کی تادیبی کاروائی میں آئندہ احتیاط کریں، طلبہ کا جانی ومالی نقصان کرنے سے اجتناب کریں اور اس کے بارے میں شرعی حدود کی رعایت کریں۔
لما في سنن ابن ماجہ:
’’ حدثنا أحمد بن سعيد الدارمي ..........عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيہ،قال: قال رسول الله صلى الله عليہ و سلم :التائب من الذنب كمن لا ذنب لہ‘‘.(باب المداومۃ علی العمل، رقم الحدیث: 4250، دار السلام).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/185