کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے 2010 ء میں تجارت کی نیت سے ایک زمین خریدی، خریدنے کے بعد اس نے آج تک مذکورہ زمین کی زکوة ادا نہیں کی ہے، اب یہ مذکورہ شخص پچھلے دس سالوں کی زکوة ادا کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پچھلے سالوں میں زمین کی قیمت اور ریٹ کیا چل رہا تھا؟ جب کہ علاقے کے جو بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلر ہیں، ان میں سے کسی کے پاس زمینوں کے پچھلے سالوں کی قیمتوں اور ریٹوں کا ریکارڈ نہیں، اب یہ مذکورہ شخص پچھلے سالوں کی زکوة کس اعتبار سے ادا کرے؟
واضح رہے کہ اگر کسی آدمی پر تجارتی زمین کی کئی سالوں کی زکوة رہ چکی ہو اور ابھی اداء کرنا چاہتا ہے، تو وہ محتاط اندازہ لگا کر غالب گمان کے مطابق زمین کی ہر سال کی قیمت لگائے اور پھر ہر سال کی زکوة ادا کرے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر زمین کی قیمت پہلے سال ایک لاکھ روپے تھی تو اس پر اڑھائی ہزار اور دوسرے سال دو لاکھ روپے تھی تواس پر پانچ ہزار روپے، اسی طرح دس سالوں کا حساب محتاط اندازے سے لگائے اور زکوة ادا کرے۔
"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى".(بدائع الصنائع:2/7،کتاب الزکاۃ)
“وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا”. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:2/ 22)
أكبر الرأي وغالب الظن فهو: الطرف الراجح إذا أخذ به القلب وهو المعتبر عند الفقهاء كما ذكره اللامشي في أصوله وحاصله أن الظن عند الفقهاء ..... وغالب الظن عندهم ملحق باليقين وهو الذي تبتنى عليه الأحكام ...... صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق. (في الأشباه والنظائر،الفن الأول، الفائدة الثانية: 1/222، 223، إدارة القرآن).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 170/91