کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے تقریبا ۲۰ لاکھ روپے پر ایک گاڑی کمائی کے لیے خریدی تو ان محبوس ۲۰ لاکھ روپے(جن سے گاڑی خریدی) پرزکوٰۃ ہے یا نہیں؟
یہی گاڑی جو کمائی کے لیے خریدی گئی، اگر اچھے داموں میں بکتی ہے تو یہ شخص اس کو بیچتا بھی ہے، یعنی ایک لحاظ سے اس نے یہ گاڑی کمائی کے لیے خریدی ہے اور دوسرے لحاظ سے اگر اس کو بیچنے میں فائدہ ہو تو پھر بیچتا بھی ہے تو آیا اس میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
اسی گاڑی سے جو کمائی کی جاتی ہے وہ گھر کے تمام اخراجات سے زیادہ ہے یعنی اس گاڑی کی کمائی کو یہ آدمی جمع کرتا ہے تو اس صورت میں گاڑی کے ٢٠ لاکھ میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
تینوں صورتوں میں گاڑی کی اصل قیمت (جو 20 لاکھ ہے)پر زکوٰۃ نہیں ،اس لیے کہ گاڑی حصولِ نفع کا آلہ ہے، البتہ گاڑی کی کمائی جب نصابِ زکوٰۃ کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔المکاري اشتری إبلا أوجوالقا بألف لیؤاجرہ ویبیعہ في آخر الأمر لازکاۃ علیہ؛لأنہ عوامل وآلۃ الاستعمال في الحال.(بزازیۃ علی ھامش الھندیۃ، کتاب الزکاۃ: ٤/٨٤، رشیدیۃ)
وفي الفقہ الإسلامي:''ووسائل النقل من طائرات وبواخر(سفن) وسیارات ومزارع الأبقار والدوا جن وتشترک کلما في صفۃ واحدۃ ھي أنھما لا تجب الزکاۃ في عینھا وإنما في ریعھا وغلتھا أو أرباحھا''. (الفقہ الإسلامي وأدلتہ، الزکاۃ، زکاۃ العمارات والمصانع: ٣/١٩٤٧، رشیدیۃ)
وکذلک آلات المحترفین۔۔۔۔ وإن حال الحول، قلہ: (وإن حال الحول) أي: ولم ینوبھا التجارۃ، بل أمسکہ محرفتہ.(الدر المختارمع رد المحتار،کتاب الزکوۃ: ٢/٢٦٥، دار الفکر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی