کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ(۱) میرے پاس اس وقت مندرجہ ذیل منقولہ و غیر منقولہ جائداد ہے۔ میں اس سال کی زکوٰۃ کا حساب بنانا چاہتا ہوں۔ آپ سے عرض ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں مجھے فرمائیں کہ میرے اوپر کتنی زکوٰۃ بنتی ہے؟
ایک (ٹرک بڑا) ٹریلر ہے حلال روزی کمانے کے لیے جو اس وقت الحمد اللہ چل رہا ہے۔
۱۔ دو ٹریلر میں نے قسطوں میں فروخت کیے ہیں جس کی ماہانہ آمدنی دس ہزار فی ٹریلر ہوتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چلتا ہے۔
۲۔دو ٹریلر اور دو کرینیں خراب کھڑی ہیں۔
۳۔ایک کا رہے سواری کے لیے۔
ایک اور ٹریلر جو خراب تھا اس کو مرمت کرا رہے ہیں۔ ایک فلیٹ ہے جس میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں جس کے اوپر ابھی قرضہ ہے۔ایک ہزار گز کا مکان ہے، آدھا میں نے ایسے ہی رکھ چھوڑا ہے، آدھے پر مکان بنایا ہے جو میں نے کرائے پر دیا ہے۔
۴۔ ایک تجارتی پلاٹ ہے جہاں میں اپنی گاڑیاں وغیرہ رکھتا ہوں، اس پر ابھی قرضہ ہے بڑے بھائی کا تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار روپے کا۔ ایک پگڑی کا دفتر بڑا اور ایک پگڑی کا دفتر چھوٹا ہے جس میں میں کرایہ دیتا ہوں۔ اہلیہ کے پاس سونا ہے اس کا حساب کرکے ہم نے زکوٰۃ نکال کر دینا شروع کردی ہے۔ نقد فی الحال کچھ نہیں ہے۔ مکان کا کرایہ ایک سال کا ملا تھا جو جون ٢٠٠١ئتک کا تھا، جو ہم خرچ کرچکے ہیں۔ اب آپ ازراہِ کرم بتائیں کہ میں دو لاکھ کاروبار میں مقروض ہوں میرے اوپر زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟
(۲) دوسرا یہ کہ میں اپنی وراثت کا حساب بنانا چاہتا ہوں کہ کتنی میرے بچوں اور بیوی کے حصے میں ہوگی۔ میری ایک بیوی ہے، ایک بیٹی ۱۵ سال کی ،دو بیٹے ،ایک دس سال کا اور ایک آٹھ سال کا ہے۔
(۱) شریعتِ مطہرہ میں جن اموال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان میں سے ایک سامانِ تجارت بھی ہے، سامانِ تجارت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو خریدتے وقت آگے بیچ کر نفع کمانے کی نیت ہو اور اب تک بیچنے کی نیت بھی برقرار ہو، لہٰذا مکان، پلاٹ، مشینری یا دیگر سامان اگر بیچنے کے لیے خریدے ہوں اور اب بھی یہی ارادہ ہو تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی،ہاں اگر یہ سامان ذاتی استعمال کے لیے ہو یا تجارت کے لیے خریدا ہو لیکن اب بیچنے کا ارادہ نہ ہو یا مکان اس نیت سے خریدا ہو کہ کرائے پر دے کر نفع حاصل کریں گے تو ان صورتوں میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔
لہٰذا صورتِ مسؤلہ میںٹریلر گاڑیاں، کرینیں(چاہے صحیح ہوں یا خراب) کار گاڑی اور رہائشی فلیٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں، البتہ ٹریلر گاڑیوں سے جو آمدنی حاصل ہوگی اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اسی طرح تجارتی پلاٹ پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ قرضہ مستثنیٰ کرکے جتنی رقم بچ جائے سال گزرنے کے بعداس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔
(۲) زندگی میں اپنی ملکیتوں کی وراثت کا حساب بنانا ضروری نہیں ہے اور اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ موت سے پہلے اس میں تبدیلی کے امکانات برابر رہتے ہیں، پھر یہ بنایا ہوا حساب بے کار ہوجائے گا، البتہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کو مقرر کردے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکے کو علمائے کرام سے معلوم کرکے اس کے ورثاء میں تقسیم کردے۔الزکاۃ واجبۃ في عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابا من الورق أو الذہب . (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، فصل في العروض: ١/١٩٥، شرکۃ علمیۃ)
ولیس في دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بالحاجۃ الأصلیۃ ولیست بنامیۃ أیضا وعلی ہذا کتب العلم لأہلہا وآلات المحترفین لما قلنا.(الھدایۃ، کتاب الزکاۃ ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ)
وفي التنویر: ولا في ثیاب البدن وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوہا.
وفي الرد: قولہ: (ونحوھا) أي: کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیھا وکالحوانیت والعقارات.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٥،سعید)
(وکذا في الھندیۃ، کتاب الزکوۃ، الباب الأول: ١/١٧٢، رشیدیۃ)
ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ فلا زکاۃ علیہ، وإن کان مالہ أکثر من دینہ: زکی الفاضل إذا بلغ نصابا؛ لفراغہ عن الحاجۃ الأصلیۃ والمراد بہ: دین لہ مطالب من جہۃ العباد. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ: ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی