کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کو سات آٹھ سال ہوگئے ہیں، میں کنواری تھی اور شوہر کی تیسری شادی تھی، ان کے پہلے سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی طلاق شدہ تھی اور ایک بیٹا کنوارہ تھا، اب اس کی شادی ہوگئی ہے، میں پورےگھر کا کام کاج کرتی تھی، اس کے باوجود ان کے بیٹے اور بیٹیاں تنگ کرتے اور طعنے دیتے تھے کہ یہ تمہارا گھر نہیں، اپنے باپ کے گھر سے حصہ لے کر آؤ، شوہر سب دیکھتا اور کچھ بھی نہیں کہتا، اپنے بچوں کے سامنے مجھے مارتا تھا اور تماشادیکھتا تھا، ہماری چھ بہنیں اور ایک بھائی ہے، والد کو دماغ کا فالج ہوا ہے، وہ کسی کو نہیں پہچانتے، بھائی کی نوکری نہیں ہے، میں شوہر کے ساتھ والد کی طبعیت دیکھنے آئی تھی، لڑائی جھگڑا کر کے مجھے والد کے گھر چھوڑ کر چلے گئے آٹھ مہینے ہوگئے، نہ مجھے خرچہ دیا ہے اور نہ ہی فون کیا، شوہر نے مہر میں 50000کا زیور دیا تھا، نکاح نامہ لکھ دیا تھا کہ میں نے ادا کردیاتھا، منہ دکھائی میں سونے کے بندے دیے تھے، اب شوہر کہہ رہا ہے کہ مہر اور سونے کے بندے واپس دے دو ،تو میں آپ کو واپس بلاؤں گا اور آپ کے ساتھ صلح کروں گا، ہم نے خرچہ کے لئے عدالت میں کیس کیا تھا، اس میں زیور بک گئے اور مقدمے میں خرچ ہوگئے ہیں، اور شوہر نے صلح کے لئے کہا کہ میں ویسے رہوں گا، جو میرے بچے بولے گے، دو ماہ رکھنے کے بعد بتاؤں گا کہ طلاق دوں گا یا آپ کو اپنے پاس رکھوں گا، شوہر نے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے نام پلاٹ کئے ہوئے ہیں، آپ بتائیں کہ زیور اور منہ دکھائی کے بُندے کس کے ہیں؟ اور ہم نے شوہر کو پہناؤنی دی ہے اور یہ کس کا حق ہے؟
میری والدہ نہیں، والد کو فالج ہوا ہے، بھائی کی نوکری نہیں، ہم صلح کے لئے شوہر کے پاس دو تین بار گئے، لیکن انہوں نے دھکے مار کر نکالا اور بولا کہ میں ایسے ہی رہوں گا اور بچے بھی وہیں رہیں گے، میرے والد کی طرف سے جو کپڑے ملے ہیں اور اس کی طرف سے جو کپڑے ملے وہ سب شوہر کے پاس ہیں مجھے نہیں دیتے ، اور ہم نے شوہر کو پہناؤنی دی تھی وہ بھی واپس نہیں دیتے۔
وضاحت: پہناؤنی سے مرادیہ ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی والے لڑکے کو کچھ رقم دیتے ہیں کہ اس سے اپنےلئے جوڑا اور جوتا وغیرہ خرید لیں، یا جوڑا اور جوتا وغیرہ دیتے ہیں اور یہ بطور ہدیہ دیا جاتا ہے ،منہ دکھائی میں عام رواج یہی ہے کہ لڑکی کو بطور ہدیہ دی جاتی ہے۔
حل طلب بات یہ کہ شوہر کا بیوی سے مہر کا زیور اور منہ دکھائی کے بندے واپس مانگنے کا شرعی حق ہے؟ اگر ہے تو کیا مجھے بھی پہناؤنی واپس لینے کا حق شرعا حاصل ہے؟
واضح رہے کہ میاں بیوی میں سے جب ایک دوسرے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے دے ، اور اس پر قبضہ بھی کرے تو اس کو واپس لینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو منہ دکھائی کے موقع پر جو سونے کے بُندے دیے تھے یا لڑکی والوں نے شادی سے پہلے لڑکے کو جو پہناؤنی دی ہے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، اور جہاں تک مہر کی بات ہے وہ تو خالص بیوی کا حق ہے اس میں بھی شوہر بیوی سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز اس کے علاوہ جہیز کا سامان کپڑے وغیرہ بھی بیوی کی ملکیت ہے۔لما في التنوير مع الدر:
’’(والزاي الزوجية وقت الهبة، فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع، ولو وهب لا مرأته لا) كعكسه‘‘.
’’قوله:(فلو وهب لامرأة الخ) الأصل الزوجية نظير القرابة حتى يجري التوارث بينهما بلا حاجب وترد شهادة كل واحد للآخر فيكون المقصود من هبة كل منهما للآخر الصلة والتوادد، دون العوض بخلاف الهبة للأجنبي فإن المقصود منها العوض، ثم المعتبر في ذلك حالة الهبة فإن كانت أجنبية كان مقصوده العوض فثبت له الرجوع فيها فلا يسقط بالتزويج، وإن كانت حليلته كان مقصوده الصلة دون العوض وقد حصل فسقط الرجوع فلا يعود بالإبانة.١ه.
قوله:(لا) أي لا يرجع ولو فارقها بعد ذلك لا يملك الرجوع لقيام الزوجية وقت الهبة.
قوله:(كعكسه) أي لو وهبته لرجل ثم نكحها رجعت ولو لزوجها لا وإن فارقها والأولى أن يقول كما إذا كانت هي الواهبة فيهما‘‘.(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، 12/611:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/242