کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱… ہمارے جنگلات پر حکومت کی طرف سے کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں ہے، نہ ہی کسی کا قبضہ ہے، ہر بستی والے اپنے متصل جنگل پر آپس میں مشورہ کے ساتھ لکڑی اور چراگاہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ جب وہاں چلغوزہ تیار ہوتا ہے، تو لوگ کوئی دن مقرر کرکے توڑ کر لاتے ہیں، تقریبا ہر فرد لاکھ تک کمائی کرتا ہے، کیا ان چلغوزوں پر زکوۃ ہے؟
۲…اسی طرح کسی ایک موسم میں جنگلات میں کھمبی (ایک قسم کی سفید نبات جو برسات میں خود بخو اُگ آتی ہے) نکلتی ہے، اس کو لوگ تلاش کرکے بیچتے ہیں، لیکن اس کے لیے نہ وقت مقرر ہوتا ہے اور نہ لوگ، بلکہ جس کو خواہش ہو، وہ لاکر بیچتا ہے، اس کی قیمت پر زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
١، ٢… چلغوزے اور کھمبیاں جو نصف صاع (پونے دو کلو) یا اس سے زائد ہوں، ان میں عشر واجب ہے، ایک بار عشر ادا کردینے کے بعد جب تک ان کو فروخت نہیں کیا جاتا، ان پر نہ دوبارہ عشر ہے نہ زکوۃ، اور جب عشر ادا کرنے کے بعد ان کو فروخت کردیا، تو ان سے حاصل شدہ رقم پر زکوۃ اس وقت واجب ہوگی، جب اس پر سال گزر جائے گا، یا اگر یہ شخص پہلے سے صاحب نصاب ہے ،تو جب اس کے نصاب پر سال پورا ہوگا، اس وقت اس میں سے جتنی رقم موجود ہو، اس کی بھی زکوۃ ادا کرے گا۔لما في الدر مع الرد:
’’یجب العشر (في ثمرۃ جبل أو مفازۃ إن حماہ الإمام) لأنہ مال مقصود...... (بلا شرط نصاب)...... (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول‘‘.
’’قولہ: (في ثمرۃ جبل).....وفي القاموس إنہ اسم لحمل الشجر والمشھور ما في المفردات أنہ اسم لکل ما یستطعم من أحمال الشجر ویجب العشر ولو کان الشجر غیر مملوک ولم یعالجہ أحد......
قولہ: (إن حماہ الإمام).......والظاھر أن المراد الحمایۃ من أھل الحرب والبغاۃ وقطاع الطریق لا عن کل أحد فإن ثمر الجبال مباح لا یجوز منع المسلمین عنہ.
قولہ: (بلا شرط نصاب) فیجب فیما دون النصاب بشرط أن یبلغ صاعا وقیل نصفہ.
قولہ :(وحولان حول) حتی لو أخرجت الأرض مرارا وجب في کل مرۃ‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب العشر: ٣/ ٣١٣، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:16-17/ 176