کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ادارہ ترقیات کراچی نے ایک شخص کو اس کے پلاٹ کے واجبات کی ادائیگی کے لیے ۱۸۰۰۰ ہزار کا نوٹس جاری کیا، اس نے ادارہ مذکورہ سے اس کی رقم کو کم کراکے ۸۰۰۰ہزار روپیہ جمع کر دیئے،باقی رقم مالک کو واپس کر دی،لیکن اس میں سے ۲۲۰۰ روپے میں نے خود لے لیے، مجھے ضرورت تھی،دل میں یہ خیال رکھا کہ یہ قرض لیے ہیں،دستیاب ہونے پر مالک کو واپس کر دوں گا، لیکن مالک کو بتایا کہ ۲۲۰۰ وہاں خرچ ہوا ،جب کہ یہ رقم کم ہوئی، یعنی ۱۸۰۰۰ ہزار سے ۸۰۰۰ ہزار ہوئی، اب۲۲۰۰ روپے میرے پاس موجود ہیں او رمیں اس پلاٹ کے مالک کو واپس کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ بتانا نہیں چاہتا کہ یہ رقم میں نے رکھی تھی، بلکہ یہ کہ محکمہ والوں سے واپس لی ہے، کیا میرا یہ فعل درست ہے؟
جب رقم اصل مالک تک پہنچ جائے تو اسے یہ کہنا کہ میں نے یہ رقم رکھی تھی ضروری نہیں، البتہ بغیر اجازت آپ کا یہ رقم لینا درست نہیں تھا۔
''الأصل أن المستحق بجہۃ إذا وصل إلی المستحق بجہۃ أخری،اعتبر بجہۃ مستحقۃ إن وصل إلیہ من المستحق علیہ،وإلا فلا''.(الدر المختار،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: ٥/٩٢، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی