کسی شخص کو بطور مضاربت کے مال فروخت کرنے کے لیے دینے کا حکم

کسی شخص کو بطور مضاربت کے مال فروخت کرنے کے لیے دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی اپنے پیسوں سے مال خریدتا ہے، پھر وہ مال دوسرے شخص کو بطور مضاربت کے دیتا ہے اور اس کا طریقہ یہ اختیا کرتا ہے کہ دوسرا شخص اس مال میں سے جتنا کماتا ہے، وہ ساری کمائی رب المال کے حوالے کر دیتا ہے، پھر رب المال اپنے حساب کے مطابق دوسرے شخص کو نفع دیتا ہے ،اب نہ تو کل نفع کی مقدار معلوم ہے اور نہ دوسرے شخص کو مال بیچنے میں مکمل اختیار حاصل ہے، بلکہ ہر چیز کی قیمت جو رب المال بتاتا ہے، اس کے مطابق بیچنے پر دوسرا شخص پابند ہوتا ہے، اب یہ مضاربت ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا یہ معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں  تو کیا یہ حرام ہے، یا صرف مکروہ ہے؟ جواب بالتفصیل مقصود ہے۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ صورت حال کا تعلق مضاربت سے نہیں ہے، کیوں کہ اس میں مضاربت کی شرائط نہیں پائی جارہی ہے، بلکہ اس کا تعلق اجارہ سے ہے، بایں طور کہ مذکورہ شخص دوسرے شخص کو اپنا سامان دیتا ہے اور قیمت بھی خود مقرر کرتا ہے، اور اسے مذکورہ سامان کے بیچنے کا کہتا ہے، لیکن چوں کہ مذکورہ معاملہ میں اجرت متعین نہیں کی گئی ہے، لہذا مذکورہ معاملہ فاسد ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اگر معاملہ کرلیا ہو تو اس کو ختم کرنا واجب ہوگا، اور مزدور کے لیے اجرت مثل (مارکیٹ میں مزدور کی جو اجرت ہوتی ہے) لازم ہوگی۔
لما في التاتارخانیۃ:
فنقول: شرائط جوازھا خمسۃ: أحدھا: أن یکون رأس المال دراھم، أو دنانیر عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف، وعند محمد: أن یکون رأس المال دراھم أو دنانیر أو فلوسا رائجۃ........وفي الذخیرۃ الضاربۃ بما سوی ھذہ الأشیاء لا یجوز إجماعا‘‘.(کتاب المضاربۃ، الفصل الأول في بیان شرائطھا وحکمھا، ١٥/ ٣٩١:فاروقیۃ)
وفي التنویر مع الدر:
’’(الفاسد) من العقود (ما کان مشروعا بأصلہ دون وصفہ، فالباطل ما لیس مشروعا أصلا) لا بأصلہ ولا بوصفہ (وحکم الأول) وھو الفاسد (وجوب أجر المثل بالاستعمال)‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ٩/ ٧٥:رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/165