کسی بچے کا قد بڑا ہونے کی وجہ سے روزے رکھوانے کا حکم

کسی بچے کا قد بڑا ہونے کی وجہ سے روزے رکھوانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی بچے کو (12،13) سال کی عمر میں قد بڑا ہونے کی وجہ سے یا پاؤں بڑے ہونے کی وجہ سے روزے رکھوانا کیسا ہے، اسی طرح بعض لوگ بچے کی گردن میں دھاگہ وغیرہ ڈال کر معلوم کرتے ہیں، جب کہ بچے کو انزال یا احتلام نہیں ہوا ہو؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

اگر بچے کی عمر بارہ سال اور بچی کی عمر نو سال ہوچکی ہے اور بلوغ کی کوئی علامت بھی ظاہر ہوچکی ہے، تو اس پر روزہ لازم ہے اور والدین اس سے روزہ رکھوائیں گے، اور اگر اب تک علامات ظاہر نہیں ہوئیں، تو دس سال کے بعد اور پندرہ سال سے پہلے پہلے اسے ترغیب دیں، اور نہ رکھنے پر تادیبی کاروائی کریں، باقی سوال میں مذکورہ طریقوں سے بلوغت معلوم کرنے کا طریقہ درست نہیں۔
لمافي الدر المختار:
’’ویؤمر الصبي بالصوم إذا أطاقہ ویضرب علیہ ابن عشر کالصلاۃ في الأصح‘‘.
وتحتہ في رد:
’’(قولہ:ویؤمر الصبي) أي یأمرہ ولیہ أو وصیہ والظاھر منہ الوجوب وکذا ینھی عن المنکرات لیألف الخیر ویترک الشرط.
(قولہ:إذا أطاقہ) یقال أطاقہ وطاقہ طوقًا ،إذا قدر علیہ والاسم الطاقۃ کما في القاموس قال ط:وقدر بسبع والمشاھد في صبیان زماننا عدم إطاقتھم الصوم في ھذا السن.اھـ. قلت: یختلف ذلک باختلاف الجسم واختلاف الوقت ضیقا وشتاء والظاھر أنہ یؤمر بقدر الإطاقۃ إذا لم یطق جمیع الشھر .
(قولہ:ویضرب) أي بید لا بخشبۃ ولا یجاوز الثلاث کما قیل بہ في الصلاۃ، وفي أحکام الأسروشني الصبي إذا أفسد صومہ لا یقضي؛ لأنہ یلحقہ في ذلک مشقۃ بخلاف الصلاۃ فإنہ یؤمر بالإعادۃ، لأنہ لا یلحقہ مشقۃ‘‘.(کتاب الصوم، مطلب في جواز الإفطار بالتحري: 442/3، رشیدیۃ)
وکذا في حاشیۃ الطحطاوي:
’’[قولہ:ولکن تؤمر بہا الأولاد] ذکورا وإناثا والصوم کالصلاۃ کما في صوم القھستاني ،وفي الدر عن حظر الاختیار أنہ یؤمر بالصوم والصلاۃ وینھي عن شرب الخمر یتألف الخیر ویعرض عن الشر والظاھر منہ أن ھذا واجب علی الولي‘‘.(کتاب الصلاۃ: 173، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/14