کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کرسمس منانے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ مسلمانوں کا کرسمس کارڈ دوست احباب کو بھیجنا کیسا ہے ؟ مسلم حکمران او رگورنمنٹ کے اعلیٰ عہدےداروں کا ( کرسچن عوام کو) کرسمس کی مبارک باد دینا از روئے شرع کیا حکم رکھتا ہے ؟
(کرسمس ڈے)چوتھی صدی عیسوی تک دنیا میں کرسمس کا نام ونشان تک نہ تھا، چوتھی صدی کے شروع میں روم کے ایک پادری نے ایک مشعل فروخت کرنے والے سرمایہ دار کے ساتھ ساز باز کرکے اُس کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے 25 دسمبر336ء کو گرجا گھر میں موم بتیاں جلا کر لوگوں سے مخصوص طریقہ پر دُعا کروائی، اور پہلا کرسمس ڈے منایا اور پھر اس دن سے موم بتیاں جلانے کا رواج چل پڑا۔
پھر لوگ اس دن اچھے اچھے کھانے بنانے اور گرجا گھروں میں جاکر مذہبی گیت گانے کا بھی اہتمام کرنے لگے ، پھر رفتہ رفتہ یہ رسم دوسرے علاقوں میں پہنچی، جرمنوں نے اس دن ایک نئی رسم یہ ایجاد کی کہ وہ اس دن حضرت عیسی او رحضرت مریم علیھما السلام کا پورا واقعہ نعوذ باﷲ ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے تھے ، اسٹیج پر ایک مصنوعی درخت لگایا جاتا جِسے حضرت مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا کہ وہ اپنی ساری تنہائی اس کے پاس بیٹھ کر گزار دیتیں، یوں کرسمس ٹری وجود میں آیا، اس کے ساتھ ساتھ کرسمس کارڈوں کی بدعت بھی ایجاد ہوئی او رکرسمس ٹری بنا کر اس میں بلب اور چھوٹی لائٹیں نصب کی جانے لگیں، او راس طرح کرسمس ٹری اور اور کرسمس کارڈ تجارتی کمپنیوں کے لیے ایک نفع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر گئے۔
یہ تہوار شروع میں تو صرف مذہبی تھا، پھر اس میں موسیقی آئی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب، شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ کرسمس کے دن لڑائی جھگڑے، آبروریزی وزیادتی اور قتل وغارت کے ریکارڈ ساز کیسز وجود میں آتے ہیں ۔
چوں کہ25 دسمبر کا حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ہونا مشکوک ہے، پھر ساڑھے تین سو عیسوی سالوں تک اس کا نام ونشان نہیں ملتا، نیز شراب نوشی اور کرسمس ٹری کی رسم کی عیسائی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں، اس لیے عیسائیوں کا ایک طقبہ بھی کرسمس ڈے منانے کو پسند نہیں کرتا، لیکن افسوس کا مقام ہے ہمارے سادہ لوح مسلمان مغرب کی اندھی تقلیدمیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے کرسمس ڈے منانا او راس میں دوست واحباب کو کارڈ بھجوانا نیو ائیر رسم سے زیادہ قبیح او رناجائز ہے، موجودہ صورت میں کرسمس کا تہوار تو عیسائی مذہب کے بھی خلاف ہے ، نیز اخلاق وتہذیب بھی اسے نہیں مانتے تو مسلم حکمرانوں اور حکومت کے اعلیٰ عہدے داران کا کرسچن عوام کو مبارک باد دینا کیامعنی رکھتا ہے؟ اگر کرسمس اُن کے مذہب میں درست بھی ہو تب بھی انہیں مبارک باد ینے کی ضرورت نہیں۔
(من سود) بفتح السين وفتح الواو المشددة بضبطه أي من كثر سواد قوم بأن ساكنهم وعاشرهم وناصرهم فهو منهم وإن لم يكن من قبيلتهم أو بلدهم (مع قوم فهو منهم.(فیض القدیر: 156/6، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ)
قال - رحمه الله - (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله - لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم جاء يوم النيروز، وأهدى لبعض المشركين بيضة يريد به تعظيم ذلك اليوم فقد كفر، وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر، ولم يرد به التعظيم لذلك اليوم، ولكن ما اعتاده بعض الناس لا يكفر، ولكن ينبغي له أن لا يفعل ذلك في ذلك اليوم خاصة، ويفعله قبله أو بعده كي لا يكون تشبها بأولئك القوم، وقد قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من تشبه بقوم فهو منهم»، وقال في الجامع الأصغر رجل اشترى يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما يعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لا يكفر. (تبیین الحقائق: 228/6).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 80/384