پیغام نکاح، عقد نکاح، رخصتی اور ولیمہ کا مسنون طریقہ

پیغام نکاح، عقد نکاح، رخصتی اور ولیمہ کا مسنون طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پیغام نکاح، عقد نکاح، رخصتی اور ولیمہ کے لیے اسلامی طرز عمل کیا ہے؟امید ہے مدلل انداز میں شرعی حوالہ جات کے ساتھ تحریری طور پر جواب عنایت فرمائیں گے، تاکہ آج کے پُرفتن دور میں مندرجہ بالا اُمور عین 100 فی صد سنت کے مطابق کرنا آسان ہوجائے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیوں کی تفصیلات بھی مفصل درج ہوں،تو بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح ایک ایسا عقد ہے ،جس کی وجہ سے ایک اجنبی عورت ،اجنبی مرد کے ساتھ ساری زندگی رہنے اور نبھانے کا عقد کرتی ہے، اسی عقد کی و جہ سے دو خاندان آپس میں جڑ جاتے ہیں۔ نکاح کے بہت سے فوائد وبرکات ہیں، مگر یہ تمام برکات اس وقت برقرار رہتے ہیں جب یہ نکاح حدودِ شرعیہ میں ہو، اگر ابتداء ہی سے اس کو خلاف شرع طریقے پر شروع کیا جائے، تمام معاملات خلاف سنت ہوں، غیروں کے طریقے پر ہوں، تو اس بابرکت چیز میں برکتوں کے بجائے نحوست آجاتی ہیں، جس کا ظہور بہت جلد ہی ہوجاتا ہے، لہذا ہمیں شادی کے معاملے میں ابتداء سے انتہاء تک شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔
شریعت میں نکاح کا جو طریقہ کار بتایا گیا ہے، اس میں تمام کام سادگی پر مبنی ہے، نکاح میں سب سے پہلے جب لڑکے کا عقد کسی لڑکی سے کیا جائے، تو لڑکا لڑکی کو اپنے دلی اطمینان کے لیے دیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ یہ دیکھنا چوری چپکے سے حدود شرع میں ہو، بہتر یہ ہے کہ لڑکا اپنے گھر والوں سے لڑکی کے متعلق معلومات لے، اس کے بعد مستحب اور مستحسن یہ ہے کہ استخارہ اور مشورہ کرلے، نکاح کی تعیین میں دیندار کو ترجیح دے، کیوں کہ حدیث شریف میں دیندار کو ترجیح دینے کا حکم آیا ہے۔
عقد نکاح کی تقریب مسجد میں منعقد ہو، جمعہ کا دن مستحسن ہے، نکاح کی تقریب میں سادگی کا پہلو غالب ہو، اس میں اصل مقصود اعلان ہو، جس کے لیے اپنے اقرباء کو بُلالیں، لیکن اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ نکاح کی مجلس میں زیادہ شور شرابہ نہ ہو، بے جا اسراف نہ ہو، بلکہ سادگی پر محمول ہو، اسی طرح یہ بات بھی مستحب ہے کہ نکاح کے وقت مہر کا تذکرہ ہو اور اگر ممکن ہو تو مہر کی ادائیگی اسی وقت کی جائے۔
نیز آج کل جس طریقہ پر رُخصتی ہوتی ہے، آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوار میں اس کا تصور بھی نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار بیٹیوں کی شادی کی، بہت سے لوگوں کے نکاح پڑھائے، لیکن ان میں کوئی بارات وغیرہ نہیں تھی، محض نکاح ہی ہوتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نکاح کی تقریب کے لیے صرف ولیمہ لازمی تھا، یہی وجہ ہے کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلتا کہ انہوں نے نکاح کیا ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر زعفران کا لگا ہوا رنگ دیکھا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے نکاح کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا :کتنے مہر کے عوض؟ عرض کیا: ایک نواۃ (کھجور کی گٹھلی کے برابر تقریبا تین گرام) سونے کے عوض، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ’’أولم ولو بشاۃ‘‘ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رخصتی میں سادگی ہوتی تھی، لہذا رخصتی میں زیادہ اسراف اور خلاف شرع امور سے اجتناب کیا جائے۔
ولیمہ کا معنی ہے شادی کا کھانا، نکاح کے بعد کی دعوت جو دولہا کی طرف سے دی جاتی ہے، اسی دعوت کو دعوتِ ولیمہ کہا جاتا ہے، ولیمہ کی دعوت کرنا اور ولیمہ کی دعوت قبول کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی خوشی سے ولیمہ کی دعوت قبول کیا کرتے اور اس میں شرکت فرماتے تھے، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں ولیمے کی تقریبات بہت سادہ اور معمولی قسم کی ہوتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ولیمہ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ: نہ اونٹ ذبح ہوا، نہ بکری، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر سے دودھ کا ایک پیالہ آیا تھا، بس وہی ولیمہ تھا، الغرض ولیمہ بس بلا تکلف وبلا تفاخر اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہو، اپنے خاص لوگوں کو کھلا دیا جائے۔
خلاصہ: ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ شادیوں اور اسی طرح کی دیگر تقریبات چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہوں، مثلاً: مہندی کی رسم، آتش بازی، ہوائی فائرنگ وغیرہ سے بالکل پاک کیا جائے، چاہے ان سے کوئی خوش ہو نا ہو، یا کوئی ناراض ہو نا ہو، بے جا فضول خرچیوں اور اسراف سے اجتناب کرنا چاہیے، اسی طرح خلاف شرع امور سے بچنا چاہیے۔
باقی یہ ایک مفصل موضوع ہے، اس کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرلیا جائے۔
(١) بہشتی زیور، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
(٢) اصلاح الرسوم، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
(٣) اسلامی شادی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
لما في التنزیل:
’’قل أطیعوا اللہ والرسول‘‘. (سورۃ آل عمران، رقم الآیۃ: ٣٢)
وفي الطحاوي:
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین‘‘.(باب المسح علی الخفین، کم وقتہ للمقیم والمسافر: ص:٦٤: حقانیۃ)
وفي الدر:
’’ویندب إعلانہ وتقدیم خطبۃ وکونہ في المسجد یوم جمعۃ بعاقد رشید وشہود عدول، والاستدانۃ لہ والنظر إلیہا قبلہ، وکونہا دونہ سنا وحسبا وعزا ومالا، وفوقہ خلقا وأدبا وورعا وجمالا‘‘.(کتاب النکاح: ٤/ ٧٥، ٧٦:رشیدیۃ)
وفي الہدایۃ:
’’ثم المہر واجب شرعا إبانۃ لشرف المحل فلا یحتاج إلی ذکرہ لصحۃ النکاح‘‘.(کتاب النکاح، باب المہر: ٢/ ٣٠٣: رشیدیۃ).
وفي صحیح مسلم:
’’عن أنس رضي اللہ عنہ یقول: قال عبد الرحمن بن عوف: رآني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلي بشاشۃ العرس فقلت: تزوجت امرأۃ من الأنصار، فقال: کم أصدقتہا؟ فقتل: نواۃ‘‘.(کتاب النکاح، باب الصداق وجواز کونہ تعلیم قرآن وخاتم حدید، ص: ٥٩٩: دار السلام).
وفي مرقاۃ المفاتیح:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شر الطعام طعام الولیمۃ یدعی لہا الأغنیاء ویترک الفقراء ومن ترک الدعوۃ فقد عصی اللہ ورسولہ‘‘.(کتاب النکاح، باب الولیمۃ، الفصل الأول: ٦/ ٣٧١: رشیدیۃ).فقط. واللہ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 173/05