کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ عام سائلین جو آج کل بہ صورت غریب ومسکین ظاہر ہوتے ہیں اور اﷲ کا واسطہ د ے کر پیسے وغیرہ مانگتے ہیں، کیا ان کو دینا اس آیت او رحدیث کے پیش نظر درست ہے؟ ”وأما السائل فلا تنھر” اور حدیث ”ومن سألکم باﷲ فأعطوہ”۔۔۔(رواہ أبوداؤد والنسائي) ”وتجوز صدقۃ التطوع للمسلم والکافر والبر والفاجر والفقیر والغني”.((التفسیر المنیر، سورۃ البقرۃ: ٣/٧٠، دارالفکر) اور چند دن پہلے اخبار ”جنگ” آپ کے مسائل او ران کے حل میں آیا تھا کہ ان کو دینا جائز نہیں اور بقول ایک شخص کے کہ حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اﷲ نے بھی عدمِ جواز کا فتوی دیا ہے۔
عام طور پر آج کل بہت سے سائلوں نے لوگوں سے مانگنے کو پیشہ بنا رکھا ہے،اس لیے اگر کسی کا پیشہ ورسائل ہونا معلوم ہو جائے، ایسے سائل کو کچھ دینے میں اس کی حرام کاری کی اعانت ہے جو کہ حرام ہے،اور اگر کسی کا محتاج اور فقیر ہونا واضح ہو جائے تواس کو دینا چاہیے، رہی آیت ”وأما السائل فلا تنھر” اور حدیث ”من سألکم باﷲ فأعطوہ”اور ”وتجوز صدقۃ التطوع للمسلم والکافر والبر والفاجر والفقیر والغني”ان نصوص میں سائل سے مراد ضرورت مندسائل ہے، جو پیشے کے طور پر نہیں، ضرورتِ شرعیہ کے تحت سوال کرتا ہو اور عزت ووقار کے ساتھ سوال کرتا ہو، کسی کے پیچھے نہ پڑتا ہو۔قال ﷲ تبارک وتعالی:(وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ). (سورۃ المائدۃ:٢)
قال الحافظ:یأمر اللّٰہ تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونۃ علی فعل الخیرات، وہو البر، وترک المنکرات وہو التقوی، وینہاہم عن التناصر علی الباطل والتعاون علی الماثم والمحارم.(تفسیرابن کثیر: ٢/١٠، سورۃ المائدۃ، دارالفیحائ)
''أما إذا کان السائل محتاجا فلا بأس أن یکرّر المسألۃ ثلاثا إعذارا وإنذارا، والأفضل ترکہ، فإن کان المسؤول یعلم بذلک، وہو قادر علی ما سئلہ، وجب علیہ الإعطاء، وإن کان جاہلا بہ، فیعطیہ مخافۃ أن یکون صادقا في سؤالہ فلا یفلح فی ردّہ''. (التفسیرالمنیر: ٣/٨٢، سورۃ البقرۃ، دارالفکر)
عن عبد اللّٰہ بن عمر، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من استعاذ باللّٰہ فأعیذوہ، ومن سأل باللّٰہ فأعطوہ، ومن دعاکم فأجیبوہ.(سنن أبي داؤد، کتاب الزکاۃ، باب عطیۃ من سأل باﷲ عزوجل:١/٢٣٢، إمدادیہ، ملتان).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی