کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کی اشاعت میں ٥/ مارچ١٩٩٩ء کو قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا حل کے عنوان سے حافظ عبدالواحد سجاد نے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
پراویڈنٹ فنڈ (جو سرکاری ملازمین کا ماہانہ کٹتا ہے اس) پر زکوٰۃ ہو گی؟
جواب۔۔۔۔۔۔پراویڈنٹ فنڈ جب نصاب کی حد تک پہنچ جائے تو اس پر بھی ہر سال زکوٰۃ واجب ہے، جتنا روپیہ اس میں سال کے آخر میں جمع ہو جائے اتنے کی زکوٰۃ ہر سال دینی چاہیے، کیوں کہ وہ اس کے ہاتھ میں نہ ہونے کے باوجود اس کی ملکیت میں ہیں۔ ملازمت چھوڑنے یا ریٹائرڈ ہونے پر اسے مل جاتا ہے، البتہ اگر وہ اکٹھا تمام برسوں کا پراویڈنٹ فنڈ ملنے پر زکوٰۃ دینا چاہے تو بھی جائز ہے۔
جناب عالی!
اس فتویٰ کی رو سے تو ہر ملازم خواہ چپراسی ہی کیوں نہ ہو،، چند سال ملازمت کرنے پر صاحبِ نصاب ہوجائے گا ،اس پر قربانی، زکوٰۃ، فطرہ سب واجب ہوجائے، خواہ اس کے گھر کا گزارہ ہو یا نہ ہو، یہ فنڈ ملازم کی ملکیت تو ہے، لیکن نہ اس کی مرضی سے کاٹا جاتا ہے، نہ یہ رقم جب چاہے اس کو مل سکتی ہے، ماسوائے خاص حالات، یعنی نوکری کافی زیادہ ہو جائے، کوئی خاص ضرورت ظاہر کی جائے، ہفتوں یا مہینوں دفتروں کے چکر او رعملے کی منت سماجت کی جائے تو پھر بھی آدھا یا آدھے سے زیادہ منظور ہوتا ہے، ورنہ ریٹائرمنٹ پر ہی ملتا ہے، بینک میں پڑی رقم کی طرح نہیں ہے کہ جب چاہے چیک لکھ کر نکلوالو۔
پراویڈنٹ فنڈ کی رقم وصول ہونے سے قبل اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، وصول ہونے کے بعد بھی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں، آئندہ کے لیے یہ تفصیل ہے:اگر یہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو اس نصاب پر سال پورا ہونے سے اس کے پاس موجود دیگر رقم وغیرہ کے ساتھ اس رقم کی بھی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہو جائے گا۔او راگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں مگر پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ملنے سے صاحبِ نصاب ہو گیا تو قمری مہینے کی جس تاریخ میں یہ رقم ملی ہے اس کے بعد ایک سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ سوال میں مذکور فتویٰ کی یہ دلیل کہ ”کیوںکہ وہ اس کے ہاتھ میں نہ ہونے کے باوجود اس کی ملک میں ہے ” صحیح نہیں، کیوںکہ وجوبِ زکوٰۃ کے لیے ملکِ کامل شرط ہے اور پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی ملکیت کامل نہیں ناقص ہے، کیوں کہ وہ اس کے قبضے میں نہیں اور نہ ہی اس کو تصرف کا اختیار ہے، لہٰذا ایک گونہ ملک ثابت ہونے کے باوجود بھی زکوٰۃفرض نہیں ہے، کیوں کہ ابھی تک ملکیت مکمل نہیں۔الزکاۃ واجبۃ علی الحر العاقل البالغ المسلم، إذا ملک نصابا ملکا تاما، وحال علیہ الحول، أما الوجوب؛ فلقولہ تعالی: (وَآتُوا الزَّکَاۃَ)، ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ''أدوا زکاۃ أموالکم ''وعلیہ إجماع الأمۃ. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ: ١/١٨٥، شرکۃ علمیۃ)
قال ابن عابدین رحمہ اﷲ (تنبیہ). مقتضی مامر من أن الدین القوي والمتوسط لایجب أداء زکاتہ إلا بعد القبض۔۔۔والحاصل: أنہ إذا قبض منہ شیأا وعندہ نصاب یضم المقبوض إلی النصاب ویزکیہ بحولہ، ولا یشترط لہ حول بعد القبض.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في وجوب الزکاۃ في دین المرصد: ٢/٣٠٦، سعید)
''وفي الضعیف لا تجب ما لم یقبض نصابا، ویحول الحول بعد القبض علیہ''(البحر الرائق، کتاب الزکوۃ: ٢/٢٦٣، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی