والد كا اپنى زندگى مىں جائىداد تقسىم كرنا

والد كا اپنى زندگى مىں جائىداد تقسىم كرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی زرعی زمین اور گھر اپنی اولاد اور بیوی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ اولاد کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے:
٭ ایک بیوی ٭تین بیٹے ٭دو بیٹیاں
اب مذکورہ ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں اگر کوئی شخص اپنا مال تقسیم کرتا ہے، تو وہ تقسیم میراث نہیں بلکہ ہبہ ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ بلا کسی امتیاز کے مال سب کے درمیان برابر تقسیم کردیا جائے، اولاد میں سے بعض کو بعض پر ترجیح نہ دی جائے، البتہ اگر کوئی خاص وجہ ترجیح ہو، تو پھر زیادہ دینا جائز ہے، مثلا: اولاد میں سے کوئی بیٹے یا بیٹی کے دیندار، یا زیادہ ضرورت مند، یا فرمانبردار، یا معذور ہونے کی وجہ سے زیادہ مال دیا جائے ، تو جائز ہے، بشرطیکہ اولاد میں سے کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، نیز جائیداد کا اولا دکو مکمل قبضہ دیا جائے۔
لہذا صورت مسئولہ میں آپ اپنے لئے جس قدر جائیداد رکھنا چاہیں رکھ لیں، اپنی اہلیہ کو جس قدر ہبہ دینا چاہیں دے دیں، باقی جائیداد کے کل پانچ برابر حصے بنا کر ہر ایک بیٹے اور بیٹی کو ایک ایک حصہ دے دیں۔
لما في البحر الرائق:
’’فروع: يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين... وفي الخلاصة: المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة‘‘. (كتاب الهبة: 490/7:رشيدية)
وفي الدر المختار:
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده ليسوي بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى‘‘.(كتاب الهبة: 583/8:رشيدية)
وفي التاتار خانية:
’’وهب رجل دار فيها متاع الواهب دفعها إلى الموهوب له فالهبة باطلة، هكذا ذكر في الزيادات، ومعناه أنه غير نافذة‘‘.(كتاب الهبة، الفصل وهب رجل دار فيها متاع: 435/14: فاروقية). فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/17