کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ نکاح کے بعد میاں بیوی میں اس معاہدہ کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
کہ بیوی اپنے تمام حقوق مہر، نان ونفقہ ، رہائش ، حقوق زوجیت سے دستبردار ہو کر صرف مرد کے نکاح میں رہنا چاہتی ہے۔
نکاح کے بعد اگر میاں بیوی آپس میں معاہدہ کریں، اور بیوی بغیر جبر واکراہ کے اپنی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ اپنے تمام حقوق (مہر، نان ونفقہ وغیرہ) سے اپنے شوہر کو بری کر کے اس کے نکاح میں رہنا چاہے، تو رہ سکتی ہے، اور اس کا یہ بری کرنا شریعت کی رو سے درست ہوگا۔
لما في الهندية:
للمرأة أن تهب مالها لزوجها من صداق دخل بها زوجها أو لم يدخل، وليس لأحد من أوليائها أب ولا غيره الاعتراض عليها. (كتاب النكاح، الباب السابع في المهر: 1/382، دار الفكر)
وفي الدر مع الرد:
(وصح حطها) كله أو بعضه (عنه) قبل أولا ويرتد بالرد كما في البحر.
قوله: (وصح حطها) الحط: الإسقاط كما في المغرب، وقيد بحطها؛ لأن حط أبيها غير صحيح لو صغيرة، ولو كبيرة توقف على إجازتها، ولا بد من رضاها. (كتاب النكاح، باب المهر: 4/239، رشيدية)
وفي تبيين الحقائق:
قال رحمه الله: (ويسقط الخلع والمبارأة كل حق لكل واحد على الآخر مما يتعلق بالنكاح) .... وهذا عند أبي حنيفة وقال محمد: لا يسقطان إلا ما سمياه، وأبو يوسف معه في الخلع ومع أبي حنيفة في المبارأة. (كتاب الطلاق، باب الخلع: 3/191، دار الكتب).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/159