کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے ذیل میں کہ آج کل نعت خواں حضرات، نعت خوانی کے درمیان میں لوگوں سے ’’سبحان اللہ،الحمد للہ،ماشاء اللہ وغیرہ‘‘کا مطالبہ کرتے ہیں، اور پھر لوگ اس کا جواب دیتے ہیں، تو شریعت کی روشنی میں اس مطالبے اور جواب کا کیا حکم ہے؟ نیز جو حضرات جواب نہیں دیتے تو ان کا حکم بھی بیان کریں۔
نعت خواں حضرات کا سامعین سے ’’الحمد للہ، ما شاء اللہ‘‘ کہنے کا مطالبہ کرنا اور سامعین کا مفید بات سننے پر الحمد للہ کہنا یا نعت خواں کے کلام یا آواز کی خوبصورتی پر ماشاء اللہ کہہ کر جواب دینا درست ہے، البتہ جو حضرات الحمد للہ اور ما شاء اللہ نہ کہیں ان پر کوئی گناہ نہیں، نیز نعت خواں حضرات کو بھی چاہیے کہ بار بار سامعین سے داد وتحسین کا مطالبہ نہ کریں۔لما في فتح الباري:
’’وأخرج البزار وابن السني من حدیث أنس رضي اللہ عنہ رفعہ ˒˒من رأی شیأ فأعجبہ فقال ما شاء اللہ لا قوۃ إلا باللہ، لم یضرہ˓˓، وفي الحدیث من الفوائد..... أن الذي یعجبہ الشيء ینبغي أن یباری إلی الدعاء للذي یعجبہ بالبرکۃ‘‘.(کتاب الطب، باب العین حق: ١٠/ ٢٥٢: قدیمي)
وفي مسند الإمام أحمد:
˒˒حدثنا عبید اللہ....... سمعت عمي عبید اللہ بن عمر بن موسی یقول: کنت عند سلیمان بن علي، فدخل شیخ من قریش فقال سلیمان: انظر إلی الشیخ: أقعدہ مقعدا صالحا، فإن لقریش حقا، فقلت: أیھا الأمیر، ألا أحدثک حدیثا بلغني أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من أھان قریشا أھانہ اللہ، قال: سبحان اللہ، ما أحسن ہذا، من حدثک ھذا، قال: قلت: حدثنیہ ربیعۃ بن أبي عبد الرحمن....عن عمرو بن عثمان بن عفان قال: قال لي أبي إلخ˓˓.([رقم الحدیث: ٤٦٠]، ١/ ٥٠٦: مؤسسۃ الرسالۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:175/319)