کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر کو ملازمت پر رکھا، ملازمت کے دوران زید نے بکر کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر بھیجنا چاہا ،تاکہ اپنا کاروبار اور ثابت ہو جائے او راس ارادے سے زید نے بکر سے صرف یہ پوچھا کہ میں آپ کو باہر مزید فنی تعلیم کے لیے بھیج رہا ہوں ،جس پر بکر نے کہا کہ میں آپ کا نوکر جہاں جدھر اور جب چاہو بھیج دو ،انکار کی گنجائش نہیں، ہاں بکر نے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں ملازم ہوں اور میری خواہش صرف آپ کے حکم کی تعمیل کرنا ہے اور عین ایسے وقت زید نے تحریری معاہدہ کے کاغذات سامنے رکھ دیئے، جس میں بکر کو اس امر کا پابند کرنا تھا کہ فنی تعلیم بیرون ملک سے واپسی پر چند سال زید کے ساتھ لازمی طور پررہے گا، ورنہ بصورت دیگر بکر زید کو جملہ اخراجات کی ادائیگی کرے گا ،جس پر بکر نے اصرار کیا کہ وہ ایسے معاہدہ کا بالکل مخالف ہے، لیکن زید نے نرم رویہ اختیار کرکے سمجھانے کی کوشش کی او رکہا کہ یہ ایک رسمی معاہدہ ہے، جس میں کوئی گواہ ذمہ دار شخصیت کی شرط بھی نہیں ہے، جس پر بکر نے دستخط کر دیے،اب بکر کو اکمل کے ہاں ملازمت کا موقع مل رہا ہے ،چوں کہ اکمل اخراجات زید سے چند گنا زیادہ دے رہا ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں کہ بکر آج زید کے معاہدہ کا پابند ہے یا نہیں؟ او رکیا اکمل کے ہاں ملازمت کر سکتا ہے یا نہیں؟
صورتِ مسؤلہ میں زید وبکر کے درمیان جو رسمی معاہدہ ہوا اس میں بکر پر لازم نہیں کہ بکر اس معاہدے کی پابندی کرے، بلکہ اکمل کے ہاں ملازمت کر سکتا ہے، البتہ بہتر تو یہ ہے کہ بکر زید کے ہاں رہے اور اس میں کوئی مفاہمت کر لے او راگر اس مفاہمت پر بکر راضی ہو جائے تو اچھی بات ہے، ورنہ کوئی حرج نہیں۔
قال اﷲ تعالی:(وأو فو بالعھد).(الإسراء: ٣٤)
أماالوعد فلا یلزم الوفاء بہ قضائ، بل الوفاء بہ مندوب مطلوب دیانۃ ومن مکارم الأخلاق، فلو وعد شخص غیرہ یبیع أو یقرض أو یہبہ مثلاً لا یجبر علی الوفاء بوعدہ بقوۃ القضاء بل یندب لہ تنفیذہ دیانۃ''.(الفقہ الإسلامي، الفصل الرابع نظریۃ العقد:٤/٢٩٢٨، رشیدیۃ)
وقال الحنفیۃ: یلزم الوعد إذا صدر معلقا علی شرط منعاً لتعزیر الموعود''.(الفقہ الإسلامي وأدلتہ: ٤/٢٩٢٩، رشیدیۃ)
''لأن المواعید قد تکون لازمۃ لحاجۃ الناس''.(الدر المختار، کتاب البیوع، باب الصرف: ٥/٢٧٧، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی