مفت طبی کیمپ میں زکوٰۃ فنڈ خرچ کرنے کا حکم

Darul Ifta

مفت طبی کیمپ میں زکوٰۃ فنڈ خرچ کرنے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ ہم ایک مفت طبی کیمپ لگا رہے ہیں، کیمپ عام لوگوں کے لیے ہوگا، اس کیمپ سے صاحب لوگ بھی فائدہ اٹھائیں گے،کیمپ کے درج ذیل اخراجات ہم زکوٰۃ فنڈ سے خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟
١۔ڈیکوریشن کے اخراجات مثلاً شامیانہ ،میزیں وغیرہ۔
٢۔اشتہار کے اخراجات مثلاً اخبارات، بینر، پمفلٹ وغیرہ، تاکہ لوگوں کو کیمپ کے بارے میں معلوم ہوسکے۔
٣۔گاڑی کا خرچ، لوگوں کوکیمپ تک لانے لے جانے کے لیے۔
٤۔کام کرنے والے کارکنوں کے لیے کھانے کا انتظام اور اس کا خرچہ ۔
٥۔لوگوں کو مفت دوائیں فراہم کرنا ۔
٦۔ڈاکٹر ز اور دیگر عملہ کا معاوضہ ادا کرنا۔
مندرجہ ذیل مسائل کے مطابق بھی فتویٰ عنایت فرمائیں ۔
١۔زکوٰۃ فنڈ سے مختلف کاموں کے مثلاً شادی ،تعلیم ،طبی اخراجات اور کاروبار وغیرہ کے لیے قرضِ حسنہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
٢۔اگر قرضِ حسنہ دیا جائے تو صاحبِ نصاب کو بھی دیا جا سکتا ہے ؟
٣۔ زکوٰۃ فنڈ سے لوگوں میں فلاح کے لیے ایمبولینس یا میت گاڑی خریدی جا سکتی ہے؟
٤۔زکوٰۃ فنڈ سے طبی مراکز کے اخراجات پورے کئے جا سکتے ہیں؟ (طبی مرکز عام پبلک کے لیے ہوگا)
٥۔زکوٰۃ فنڈ سے کسی شخص کو یکمشت،٢٥٠٠٠/٠٠٠،٣٠ روپیہ دئیے جاسکتے ہیں؟ (کاروبار یا کسی اور ضرورت کے لیے )
٦۔زکوٰۃ فنڈ سے فلاحی ادارے کے لیے زمین خریدی جاسکتی ہے اور اور اس پر عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے؟
٧۔زکوٰۃ فنڈ جس سال وصولی کیا جائے اسی سال خرچ کرنا ضروری ہے؟
٨۔زکوٰۃ فنڈ سے انڈسٹریل ہوم ،لائبریری وغیرہ کے اخراجات پورے کئے جاسکتے ہیں ۔جس سے تمام لوگ فائدہ اٹھائیں؟

جواب

تمام مسائل مذکورہ کے جوابات سے قبل بطورِ تمہید چند باتیں ذہن نشین کرلیں جس سے اکثر مسائل کے جوابات خود بخود آجائیں گے،نماز،روزہ،حج کی طرح زکوٰۃ بھی عبادت ہے۔
زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے،زکوۃ کے آٹھ مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کر دئیے ہیں، مال زکوٰۃ،صرف ان ہی لوگ کو دینا ضروری ہے،جمہور فقہاء اس پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ کے معینہ آٹھ مصارف میں ادائیگی زکوٰۃ کے لیے یہ شرط ہے(یعنی ضروری ہے)ان مصارف میں سے کسی مستحق کو مالِ زکوٰۃ پر مالکانہ قبضہ دیا جائے ،بغیر مالکانہ قبضہ دئیے اگر کوئی مال انہیں لوگوں کے فائدے کے لیے خرچ کردیا گیا، تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ،مذکورہ کیمپ بھی اگرچہ انہیں کے فائدے کے لیے ہے،مگر اس میں بھی زکوٰۃ کے ادا ہونے کی جو شر ط تملیکِ فقراء یعنی مستحق کو دینے کی ہے وہ مفقود ہے، اس لیے اس طبی کیمپ کے اخراجات زکوٰۃ فنڈ سے لگانا  درست نہیں  ہے ،اسی وجہ سے آئمہ اربعہ اور جمہور فقہاء امت اس پر متفق ہیں کہ رقمِ زکوۃ کو مساجد یا مدارس یا شفاء خانہ، یتیم خانہ کی تعمیر میں یا ان کی دوسری ضروریات میں صرف کرناجائز نہیں ،اگر چہ تمام چیزوں سے فائدہ ان فقراء اور دوسرے حضرات کو پہنچتا ہے جو مستحق زکوٰۃ ہیں، مگر ان کا مالکانہ قبضہ ان چیزوں پر نہ ہونے کے سبب زکوٰۃ اس سے ادا نہیں ہوتی،مذکورہ بالا تحریر سے یہ مسئلہ واضح ہواکہ مذکورہ طبی کیمپ کے اخراجات مثلاً ڈیکوریشن، اشتہار گاڑی، کام کرنے والوں کا معاوضہ، یہ تمام اخراجات اگرچہ ان کے فائدے کے لیے ہیں مگر زکوٰۃ فنڈ سے خرچ کرنا جائز نہیں۔
باقی اس طبی کیمپ میں جو دواء حاجت مند غرباء کو مالکانہ حیثیت سے دی جائے تو اس کی قیمت رقمِ زکوٰۃ میں محسوب ہو سکتی ہے ،زکوٰۃ فنڈ سے مفت دوائیں مستحقین کودیناجائز ہے۔
باقی زکوۃ فنڈ سے ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کو معاوضہ میں زکوٰۃ فنڈ دینا جائز نہیں ۔
(٢۔٣۔٤۔)جائز نہیں ۔
(٥۔)مالکانہ قبضہ کے ساتھ دیتا ہے تو دے سکتا ہے۔مگر یکمشت اتنا مال دینا مکروہ ہے۔
(٦۔)جائز نہیں۔
(٧۔)ضروری نہیں، البتہ بہتر ہے۔
(٨۔)جائز نہیں۔
قال اللہ تعالی: إنما الصدقات للفقراء والمساکین والعٰملین.
مصرف الزکوۃ والعشر۔۔۔۔(ھو الفقیر،وھو من لہ أدنی شيئ)۔۔۔۔(ومسکین من لاشيء لہ)۔۔۔۔الخ (الدر المختار، کتاب الزکوۃ، باب المصرف: ٣/٣٣٣، ٣٣٤، دارالمعرفۃ)
علیھا والمؤلفۃ قلوبھم وفي الرقاب والغارمین وفي سبیل اﷲ وابن السبیل، فریضۃ من اﷲ، واﷲ علیم حکیم.'' (التوبۃ: ٦٠)

(ھي) لغۃ :الطھارۃ والنماء، وشرعا الدر (تمیلک)جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمي ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ ﷲ تعالی).(الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٥، سعید)
وأما رکن الزکاۃ، فرکن الزکاۃ: ہو إخراج جزء من النصاب إلی اللہ تعالی، وتسلیم ذلک إلیہ یقطع المالک یدہ عنہ بتملیکہ من الفقیر وتسلیمہ إلیہ، أو إلی ید من ہو نائب عنہ وہو المصدق والملک للفقیر یثبت من اللّٰہ تعالی وصاحب المال نائب عن اللّٰہ تعالی في التملیک والتسلیم إلی الفقیر۔۔۔وعلی ہذا یخرج صرف الزکاۃ إلی وجوہ البر من بناء المساجد، والرباطات والسقایات، وإصلاح القناطر، وتکفین الموتی ودفنہم أنہ لا یجوز؛ لأنہ لم یوجد التملیک أصلا. (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ: ٢/١٤٢، رشیدیۃ)
ویشترط أن یکون الصرف (تملیکا) لا إباحۃ کما مر (لا) یصرف (إلی بنائ) نحو (مسجد و) لا إلی (کفن میت وقضاء دینہ).''
قولہ: (تملیکا) لا یکفي فیہا الإطعام إلا بطریق التملیک، ولو أطعمہ عندہ ناویا الزکاۃ لا تکفي ۔۔۔ قولہ:(نحو مسجد) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ. زیلعي.'' (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٤٤، سعید)
(وکرہ إعطاء فقیر نصابا) أو أکثر (إلا إذا کان )المدفوع إلیہ (مدیونا و) کان (صاحب عیال)بحیث (لو فرقہ علیہم لا یخص کلا)أو لا یفضل بعد دینہ (نصاب) فلا یکرہ.''(الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب الصرف: ٢/٣٥٣، سعید) (وکذ في الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف ١/١١٨، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer