مضاربت کی صورت میں متعین نفع لینے کا حکم

مضاربت کی صورت میں متعین نفع لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ فریقین نے کاروبار کا معاہدہ کیا جس کے تحت ایک فریق نے دوسرے کو ایک لاکھ روپے اس شرط پر دیے کہ و ہ فریق ثانی کو ۱۰۰  روپے یومیہ دے گا، اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ سو روپے جو فریق ثانی کو ملیں گے یہ سود میں داخل ہیں یا نہیں؟ اور اس طرح کا کاروبار جائز ہے یانہیں؟ اگر ناجائز ہے تو براہ کرم شریعت کے مطابق جائز صورت بتا کر شکریہ کا موقع فراہم فرمائیں۔

جواب

یہ عقدِ مضاربت ہے اور مذکورہ صورت جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ مضارب سو روپے روزانہ صاحبِ مال کو ادا کرے گا اور یہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ شریعت کا قانون ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک کو ملنے والے نفع کی مقدار طے ہونی چاہیے، یہاں ایک فریق کا نفع متعین ہے اور دوسرے کا متعین نہیں ہے۔

اس معاملے کی جائز صورت یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات آپس میں فی صدی منافع طے کریں کہ روزانہ جتنا نفع ہو تو اس میں سے فریق ثانی کے لیے کتنے فی صد نفع ہو گا، جیسے پچاس فی صد یا ساٹھ فی صد ، بقیہ فریق اوّل کا ہو گا۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریق ثانی روزانہ سو روپے بطور خرچ لے لیا کرے اور فریق اوّل بھی کچھ رقم خرچ کر لے پھر آخر سال میں حساب کیا جائے جو کمی بیشی ہو پوری کر لی جائے۔

''(وشرطھا) أمور سبعۃ (کون رأس المال من الأثمان۔۔۔(وکون الربح بینھما شائعاً) فلو عین قدرا فسدت۔۔۔ وفي الحلالیۃ: کل شرط یوجب جھالۃ في الربح أو یقطع الشرکۃ فیہ یفسدھا''.(تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب المضاربۃ: ٥/٦٤٨، سعید)

''لو قال رب المال للمضارب:علی أن مازرق اللّٰہ تعالی من الربح بیننا، جاز ویکون الربح بینھما علی السواء، کذا في فتاوی قاضي خان۔۔۔إذا دفع الرجل إلی غیرہ ألف درھم مضاربۃ، علی أن للمضارب نصف الربح أو ثلثہ ولم یتعرض لجانب رب المال، فالمضاربۃ جائزۃ، وللمضارب ماشرط لہ، والباقی لرب المال، ولو قال: علی ان لرب المال نصفہ أو ثلثہ ولم یبین للمضارب شیأا، ففي الاستحسان: تجوز، ویکون للمضارب الباقي بعد نصیب رب المال، ھکذا في المحیط''.ولو قال رب المال للمضارب:علی أن لي نصف الربح ولک ثلثہ، کان للمضارب ثلث الربح والباقي لرب المال''.(الھندیۃ، کتاب المضاریۃ، الباب الثاني: ٤/٢٨٨، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی